• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سارا مسئلہ توازن کا ہے۔کائنات کا تمام دارومدار دو قوتوں ،خیر اور شر کی پراسرار ہنگامہ آرائی کی مرہونِ منت ہے۔ حیرت ناک عمل یہ ہے کہ ہر زمانے میں دونوں کا تناسب برابر رہتا ہے۔ ایک علاقےمیں مرنے والا یزیدیت کا علمبردار کسی اور سرزمین، مذہب اور نسل میں نئے نام سے نمودار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح حق اور انسانیت کی علامت حاتم طائی، ایدھی اور فرید اپنی میعاد پوری کر کے رخصت ہوتے ہیں تو کسی اور کونے میں انہی خصوصیات کی حامل شخصیت جنم لے لیتی ہیں۔ قدرت ان دونوں پلڑوں کا حساب کتاب برابر رکھتی ہے۔ کسی میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ کائنات کی تمام رنگارنگی اسی تناسب کی مرہونِ منت ہے۔ اسی سے زندگی کی کہانی کا آغاز اور اختتام لکھا جاتا ہے۔ اسی سے دن رات جنم لیتے ہیں۔ رونق،خواہش اور ہار جیت کےجذبات کی شدت بھی انہی سے جڑی ہے، دونوں کے الگ الگ دائرہ کار نہیں بلکہ بیک وقت وہ ایک ساتھ ایک وجود یا مظہر میں ایک ہی ڈگر پر بھی ہو سکتی ہے اور ایک دوسرے کے مقابل بھی۔ اگر کائنات سے شر منفی کر دیا جائے تو یہ بھی فرشتوں کی آماجگاہ بن جائے جو آسان اور میکانکی عمل کی حامل ہو جس میں جذبات اور احساسات مفقود ہوں۔ بقول اقبالؔ

نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی

تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اَولیٰ!

پچھلے کچھ عرصے سے پوری دنیا پر انتہاپسند سوچ کی حکمرانی ہے۔ ہر سطح پر اس کا اظہار توانا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ ہماری خوراک،رہن سہن اور طررِ زندگی کا مصنوعی پن بظاہر اس کی چھوٹی سی وجہ ہے مگر یہیں سے معاملات کا بگاڑ شروع ہوتا ہے۔ سہولتوں نے ہمیں دوسروں سے جدا اور ہمارے مزاج کو بےپروا بنا دیا ہے۔ کار میں سفر کرنے والے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ میں مختلف موضوعات پر ہونے والی گفتگو بالکل اجنبی ہو چکی ہے۔ ڈرائنگ روم دانشوری آفاقیت کے کینوس کے سحر میں گم ہے۔ اس نے عمومی مسائل کے حامل طبقے سے فاصلہ کر رکھا ہے۔ انٹیلیکچوئیل اور اوسط ذہن لوگوں کے آپسی رابطے مفقود ہو چکے ہیں۔ نتیجتاً بالکل ان پڑھ اور کم فہم شخص بھی اپنی ذاتی رائے کو حرفِ آخر سمجھنے لگا ہے۔ وہ الہام،خواب اور تصور کے سہارے فیصلے کرنے لگا ہے۔ جب دن دہاڑے ایک نوجوان بینک منیجر قتل ہوتا ہے تو اس کے قتل سے زیادہ قاتل کی پذیرائی کرنے والا مجمع سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ کسی انفرادی شرانگیز کارروائی کو معاشرے کی طرف سے شہہ دینا زیادہ خطرناک ہے۔ جنگل اور مہذب معاشرے میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے۔ قانون،عدالتیں اور منصف کس لئے ہیں۔ مگر جب 13 سالہ نابالغ آرزو راجا کو چوالیس سالہ شخص کے ساتھ جانے کی اجازت دی جاتی ہے تو صرف اس کو جنم دینے والی کے کلیجے پر چھریاں نہیں چلتیں بلکہ ہر ماں کا احساس مجروح ہوتا ہے۔ بھلا ہو انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں، اداروں اور اشخاص کا جو اس اذیت ناک کہانی کو منطقی انجام کی طرف لے جاتے ہیں…اب دنیا کے ساتھ ساتھ اپنے ملک پر توجہ مرکوز کریں، تجزیہ کرنے کی کوشش کریں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ سارا مسئلہ توازن کا ہے۔ دو پاٹوں کا توازن بگڑ جائے تو ایک زمین اور دوسرا چھت کے ساتھ لگ جاتا ہے۔ دونوں میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ شر کی وحشیانہ صورتیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ جب قدرت نے دونوں کا تناسب برابر رکھا ہے اور انسان کو منفی کو مثبت رنگ میں ڈھالنے کی صلاحیت بخشی ہے تو پھر نگاہ ان ہستیوں کی جانب اٹھتی ہے جنہیں رب نے خیر کا پیامبر بنا کر بھیجا تھا،جن کا کام اپنی ذات تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں کی فکری اصلاح کرنی تھی۔ وہ اپنے عمل،اپنی ذات تک محدود ہوگئے۔ یہ سوچ کر اطمینان محسوس کرنے لگے کہ ان کا ذاتی عمل خیر کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے اپنے فرض سے کوتاہی برتی تو توازن بگڑنے لگا۔ ہم سب جو تھوڑی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ ہیں، سب اس معاشرتی بگاڑ کے جواب دہ ہوں گے۔ کمسن بچے بچیوں سے زیادتی، بے گناہوں کے قتل اور نفرت کی آگ پھیلانے میں ہماری خاموشی کا بھی خاص عمل دخل ہے، ہمیں بھی مجرموں والے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا، بھلے وہ ضمیر کا ہی کیوں نہ ہو۔ ہمیں بھی اپنے حصے کی سزا بھگتنا ہوگی۔ اس لئے ضروری ہے کہ خیر کی سوچ رکھنے والے جمود کی روش کو ترک کر کے حرکت کے میدان میں آئیں اور سماج میں محبت اور انسانی قدروں کا پرچار کریں۔ قدرت جس فرد کو جو صلاحیت عطا کرتی ہے اس کا حساب بھی لیتی ہے۔ ہم میں سے جو شعور رکھتے ہیں، انسانیت کی فکر کرتے ہیں، انسانوں کا درد محسوس کرتے ہیں، وہ بھی چھوٹے چھوٹے صوفی اور ولی ہیں، اپنے اپنے دائرہ کار میں ہم سب کو متحرک ہونا ہوگا اگر ہم اپنی ڈیوٹی نہیں کریں گے تو خالی جگہ وہ لوگ پر کریں گے جو اس کے برعکس سوچتے ہیں۔ زندگی جاگنے اور عمل کرنے کا نام ہے اور ان اعمال کا اجر ذہنی آسودگی اور بے چینی کی صورت اس جہان میں ملتا ہے اور اگلے جہان کے مدارج کا دارومدار بھی انہی پر ہے

بقول اقبالؔ

کھو نہ جا اس شام و سحر میں اے صاحبِ ہوش

اِک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش

تازہ ترین