ڈاکٹر فیض احمد
بلاشبہ کسی بھی قوم کی باگ دوڑ اس کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔جس طرح ایک عمارت کی تعمیر میں اینٹ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اینٹ سے اینٹ کو جوڑ کر عمارت تعمیر ہوتی ہے ، ہراینٹ کی اپنی ایک جگہ ہوتی ہے، ایک بھی اینٹ کو نکال دیا جائے تو عمارت میں نقص پیدا ہوجائےگا ، بالکل اسی طرح ملک کی تعمیر میںنوجوان بہت اہمیت کے حامل ہیں۔معاشرے کی ترقی میں طلبہ کی اہمیت کا اندازہ کسی لڑی میں پروئے موتیوں کی مالا سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ایک بھی موتی نکل جائے تو پوری مالا ٹوٹ جائے گی۔اسی طرح اگر نوجوان اپنی زندگی کا لائحہ عمل نہ بنائیں اور صحیح مقاصد کا تعین نہ کریں تو معاشرہ بکھر جاتا ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارہ“
نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ محنت کو اپنا شعار بنائیں۔ انتھک محنت ہی سے کامیابی قدم چومتی ہے۔ہر انسان کے اندر ایک گوہر نایاب چھپا ہوتا ہے، جس طرح ایک جوہری کو پتا ہوتا ہے کہ کون سا ہیرا کتنی مالیت کا ہے، وہ اپنی دکان میں موجود ہر ہیرے کو پرکھنا جانتا ہے، بالکل اسی طرح ہر نوجوان کے اندر بھی کچھ جواہر پوشیدہ ہوتے ہیں، بس ان کو پرکھنے اور تراش کر نکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
آج کل ہماری نوجوان نسل کا زیادہ تررجحان سوشل میڈیا کی طرف ہے، جہاںوہ مغربی تہذیب کی چمک دمک کے حصار میں ہیں۔وہ اردو کے بجائے انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔مشرقی طرز زندگی اپنانے کے بجائے، مغربیت کی طرف راغب ہیں۔ کوئی بھی قوم کسی کی نقل کر کے کبھی بھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی۔
منزل تک پہنچنے کے لیے مسلسل چلتے رہنا اور باہمّت ہونا بہت ضروری ہے لیکن نوجوان نسل کا المیہ یہ ہے کہ وہ سست اور آرام طلب ہو گئی ہے۔ یاد رکھیں ایسے لوگ کبھی آگے نہیں بڑھ نہیں سکتے ۔محنت کا ضذبہ ہو تو آرام طلبی کی زندگی گزارنے کا سوچیں گے بھی نہیں۔ اگر آرام طلب ہیں تو اسے ختم کریں ۔ آگے بڑھنے کچھ کرنے ، کچھ بننےکے لیے محنت کریں کہ اس کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ ایک قدم بڑھائیں دوسرا قدم خود بہ خود اُٹھے گا اور پھر بڑھتے قدم کوئی نہیں روک سکتا۔
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔
ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔
اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میں آپ اپنے تلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے:
’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔