• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

نوجوان نسل ملک و ملت کا ایک قیمتی سرمایہ اور مستقبل کا درخشاں ستارے ہیں۔ دنیا کی ہر تحریک نوجوانوں کی جدوجہد سے ہی کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن آج نوجوانوں میں انقلابی و تحریکی کاموں کے بجائے فیشن پرستی، بے حیائی، دوسروں کی نقالی اور منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نوجوانوں کی تباہی پوری قوم کی تباہی ہے۔ موجودہ دور کے مسلم نوجوانوں کے پاس سب کچھ ہے، مگر افسوس نہیں ہے تو زندگی کا صحیح مقصد نہیں ہے ۔ انھیں اس کا کوئی افسوس بھی نہیں ہوتا بلکہ وہ اس مصرعہ کے مصداق ہیں ؂

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

لباس ہو یا طور طریقہ، چلنے کا انداز ہو یا گفتگو ، ان کی تمام حرکات قابل افسوس ہیں ۔ لیکن ان سارے معاملات میں صرف نوجوان ہی قصوروار نہیں بلکہ ان کے والدین کا بھی حصہ شامل ہے، جنھوں نے اپنے فرائض سے غفلت برتی اور ان کی تربیت کو قابل توجہ نہ جانا۔ گھر بچوں کی بنیادی تربیت گاہ ہوتی ہے، اس مکتب میں بچوں کے طبعی رجحانات کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں ۔ جن بچوں کی زندگی میں والدین کی غفلت اور بے تدبیری کے سبب غلط قسم کے رجحانات راہ پا جاتے ہیں ، اعلیٰ سے اعلیٰ تربیت گاہ بھی ان کے ذہنی افتاد کو نہیں بدل سکتی۔ آج کی نوجوان نسل کو تفریحی مشاغل سے فراغت اور فیشن پرستی سے فرصت نہیں ۔ نمو د ونمائش کے یہ دھندے ان کی جان کا آزار بن گئے ہیں ۔

فیشن کا خاصہ ہے کہ وہ انسانی رویوں کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ اب تو اس کی وجہ سے نوجوانوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ لڑکیاں جینس، ٹی شرٹ میں ملبوس مکمل لڑکوں والا حلیہ بنائے خود پر فخر محسوس کرتی ہیں تو لڑکے ہاتھوں میں کنگن پہنے، بالوں کی پونی بنائے، کانوں میں بالیاںلٹکائے صنف نازک کو مات دیتے دکھائی دیتے ہیں ۔

اسلام نےطرزِ زندگی اپنانے میں جو حدود و قیود مقرر کی ہیں ایک مسلمان ان حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی زندگی سنوار سکتا ہے، جبکہ فیشن ہر حدود وقیود سے آزاد ہوتا ہے۔ پہلے جن چیزوں کو لوگ اپنانے سے ہچکچاتے تھے ، اب فیشن کے نام پر ان کو بلاتکلف اختیار کرلیاگیاہے۔ اگر فیشن پرستی کی پٹی آنکھوں سے اتار کر دیکھیں تو واضح ہوجائے گا کہ اس فیشن کا مقصدکیا ہے ۔ بقول اقبال ؂

وہ حیا جو کل تلک تھی مشرقی چہرے کا نور

لے اُڑی اس نکہتِ گل کا یہ تہذیب فرنگ

انسان نے ظاہری جسم کے نقصان کو تو پہچان لیا، مگر اس نے روح کی بیماریوں سے نگاہیں پھیر لیں ۔ وہ نماز یں ترک کرتا ہے، روزےچھوڑتا ہے، سگریٹ پیتا ہے، جھوٹ بولتا ہے اور مختلف برائیوں میں ملوث ہوکر اسلامی احکامات کی نافرمانی کرتاتوڑتا ہے ۔ دن بھر کی مصروفیات سے تھک کر سکون تلاش کرتا ہے، ٹی وی، انٹرنیٹ میں ، لیکن انھیں یہ نہیں معلوم کہ حقیقی سکون اگر ہے تو صرف اللہ کی یاد میں ۔

نوجوان نسل مغربی تہذیب کا غلبہ اس قدر ہے کہ خاندانی نظام کے ساتھ وہ تمام خونی رشتے بھی بے معنی ہوگئے ہیں۔

زمانہ جیسے جیسے آگے بڑھتا جائے گا، نوجوانوں کی حیثیت اور اہمیت بھی بڑھتی جائے گی۔یہ طبقہ اسی وقت ی قوم و ملت کے لئے کارگر ثابت ہوسکتا ہے جب ان کی آبیاری بہتر طریقے سے اور ان پر خصوصی تو جہ مرکوز کی جائے تو یہ ملت کے لئے سایہ دار اور ثمرآور درخت بن سکتےہیں۔ جب ملت کا ہر طبقہ تربیت و اصلاح کے لےئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لانے کا تہیہ کر لے تو نوجوان نسلوں کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ میں آجائے گا اور وہ اپنی زندگی کو یوں برباد کرنے کے بجائے دین و ملت پر قربان کرنا زیادہ پسند کریں گے۔

اس لئے ضروری ہے کہ نسل نو کو فیشن کے دلدل سے نکالنے کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے۔ نوجوانوں کو خود بھی غور کرنا چاہیے۔

 تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:

زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔

ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔

اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میں آپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔

ہمارا پتا ہے:

’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین