برکت اللہ
باہمت، باشعور، متحرک، پرجوش اور پرمغز نوجوان ہی اپنی قوم کی بہتر راہنمائی کر سکتے ہیں۔ وہ اقوام خوش نصیب ہوتی ہیں جن کے نوجوان فولادی ہمت اور بلند عزم و استقلال سے سرفراز ہوتے ہیں۔ باشعور نوجوان ہی شعور یافتہ معاشرے کے قیام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کامیابی ان اقوام کا مقدر ہوتی ہے، جن کے نوجوان مشکلات سے گھبرانے کے بجائے دلیری سے مقابلہ کرنے کا ہنر جانتے ہوں۔ کامرانی ان اقوام کی قدم بوسی کرتی ہے جن کے نوجوان طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ خوش حالی ان اقوام کے گلے لگ جاتی ہے جن کے نوجوانوں کے عزائم آسمان کو چھوتے ہیں۔ ترقی ان اقوام کا طواف کرتی ہے، جن کے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی لگن اور تڑپ ہوتی ہے۔ سرخروئی ان اقوام کو نصیب ہوتی ہے جن کے نوجوان محنت میں عظمت کا راز پا لیتے ہیں۔ وہ اقوام آگے بڑھتی ہیں جن کے نوجوان جہدِ مسلسل کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ محنت کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر ہی کامیابی کے لعل و گوہر کو پایا جا سکتا ہے۔ عزم و ہمت کے صحرا میں آبلہ پائی کرنے سے ہی کامیابی کے نخلستان تک رسائی مل سکتی ہے۔ جستجو کے میدان میں خیمہ زن ہو کر ہی سربلندی کے راز کو پایا جا سکتا ہے۔ جذبہ و جنون کی چوٹی کو سر کر کے ہی کامیابی کے جھنڈےنصب کرنا نصیب ہوتا ہے۔
ترقی یافتہ، خوش حال اور کامیاب اقوام کی تاریخ میں یہی راز پوشیدہ ہیں کہ انھوں نے اپنی ناکامی میں کامیابی، شکست میں جیت اور ذلت میں عزت کو تلاش کرنے کا ہنر جان لیا ہے۔
یہ کڑوا سچ ہے کہ آج جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ جمود کا شکار نظر آتا ہے۔ ترقی کے بجائے ہم تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان معاشرے سے بیگانہ، اور بیزار نظر آتے ہیں۔ اِن میں اُن فولادی عزائم کا فقدان نظر آتا ہے جو کامیاب قوموں کا خاصا ہوتے ہیںہے۔ اُن کی اجتماعی سوچ پر انفرادی سوچ غالب نظر آتی ہے۔ ان میں مشکلات کا مقابلہ کرنے کی سکت نظر آتی ہے اور نہ ہی آگے بڑھنے کی لگن اور حوصلہ دکھائی دیتا ہے۔نوجوانوں میں احساسِ ذمہ داری کا فقدان نظر آتا ہے۔ نوجوانوں میں احساسِ ذمہ داری کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہ کڑوا سچ ہے کہ آج ہمارے نوجوانوں کی اکثریت اپنی ذمہ داریوں سے بے بہرہ اور معاشرے کے مسائل سے لاتعلق نظر آتی ہے۔آخر ایسا کیوں ہے؟ تربیت میں جھول یا تعلیمی اداروں کانظام۔
یہ تو کھلی حقیقت ہے کہ تربیت کے اہم عناصر میں خاندان کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے اور خاندان میں والدین کی حیثیت کلیدی ہوتی ہے۔جن کی تربیت کا اثر بچوں پر زندگی بھر رہتا ہے۔ اگروالدین اپنا کام بخوبی انجام دیں تو معاشرے کو سلجھے ہوئے باکردار افراد میسر آ سکیں گے جو کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
خاندان کے بعد اہم کردار تعلیمی اداروں کا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں زیادہ تر تعلیمی اداروں میں تربیت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، جہاں پر چند گھنٹے گزارنے کے بعد بچہ چند رٹائے ہوئے اسباق کے ساتھ گھر کی راہ لیتا ہے۔ استاد اور شاگرد کا مثالی رشتہ بھی اب ناپید ہوچکا ہے۔ نہ استاد اپنی ذمہ داریوں کو نیک نیتی سے نبھار ہے ہیں اور نہ ہی شاگرد اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں مخلص نظر آتے ہیں۔
معاشرے کی ترقی اور نوجوانوں کی تربیت میں سیاسی اورسماجی تنظیموں کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے وہ بھی اپنے فرائض سے غافل نظر آتی ہیں۔ صرف اقتدار اور پروجیکٹس کا حصول ان کا مطع نظر بن کر رہ گیا ہے جب کہ ماضی میں کسی بھی سیاسی اور سماجی تنظیم کی پہلی ترجیح نوجوانوں کی اخلاقی اور علمی تربیت ہوتا تھا لیکن آج ہماری سیاسی اور سماجی تنظیمیں شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ آج نظریے کی نہیں بلکہ شخصیات کی پیروی کی جاتی ہے۔
ہم اب تک ماضی کے دھندلکوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ نہ ہمیں حال کی ضروریات کا ادراک ہے اور نہ ہی مستقبل کے چیلنجز سے باخبر ہیں۔ ہمارے ہاں منصوبہ بندی کا شدید فقدان ہے۔ ہم تنقید کے ماہر ہیں لیکن اصلاح سے ہمیں سروکار نہیں۔ سستی، کاہلی اور بے حسی ہمارے اٹوٹ انگ کا روپ دھار چکے ہیں۔ ہم تبدیلی چاہتے ہیں لیکن خود کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری نگاہیں آسمان پر لیکن پاؤں کیچڑ میں ہوتے ہیں۔ دنیا کو تسخیرکرنا ہمارا خواب ہے لیکن خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی اور سماجی ادارے اپنا کردار بخوبی ادا کریں۔ نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی کو حرزِجاں بنا کر ہی ہم معاشرے میں تبدیلی لانے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو متحرککرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حوصلہ مند اور باصلاحیت نوجوان ہی طوفان کا دھارا تبدیل کر سکتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم لفاظی کے بجائےعملی اقدامات کو اپنا مقصد بنا لیں۔ محض گفتار کا غازی بننے سے نہ سماجی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے اور نہ ہی ترقی اور خوش حالی کے دریا کو پار کیا جا سکتا ہے۔
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔
ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔
اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میں آپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے:
’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔