نومبرکا مہینہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں ہمیشہ ہی ممتاز حیثیت کا حامل رہا ہےکہ 73 سال قبل یکم نومبر 1947ء کو گلگت کے باشندوں نے ڈوگرہ حکومت سے آزادی حاصل کی تھی۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ گیارہ سال قبل 2009ء میں جب گلگت بلتستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے، تب بھی نومبر ہی کا مہینہ تھااوراب ایک مرتبہ پھر گلگت بلتستان کے باسی نومبر ہی میں نمائندہ حکومت کے قیام کے لیےارکانِ اسمبلی کا انتخاب کررہے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ تو انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہی ہوسکے گا کہ اس مرتبہ عنانِ اقتدار کس کے حصّے آتی ہے، لیکن سرِ دست ہم ماضی کی جانب پلٹتے ہیں، تاکہ گلگت بلتستان کی تاریخ و سیاست کا مطالعہ، اس کے موجودہ مسائل کے تناظر میں کیا جا سکے۔
جب تقسیمِ ہند سے قبل گلگت بلتستان ڈوگرہ راج میں ریاست جمّوں و کشمیر کا حصّہ تھا، تو برطانیہ نے 1935ء میں مہاراجہ کشمیر سےیہ علاقہ ساٹھ سال کے لیےپٹّے (Lease) پر لیاتھا۔ اگست1947ء میں تقسیمِ ہند کے موقعے پر برّ ِصغیرسے برطانوی عمل داری کا خاتمہ ہوا، تو یہ علاقہ دوبارہ مہاراجہ کشمیر کے حوالے کردیا گیا۔مہاراجہ نے بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گورنر بناکر گلگت روانہ کیا۔ تاہم، یکم نومبر1947ء کو گلگت اسکاؤٹس، مہاراجہ کی فوج کے مسلمان اہل کاروں اور مقامی باشندوں نے مشترکہ جدّوجہد کے نتیجے میں گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے عبوری انقلابی حکومت قائم کردی۔ جس کا سربراہ گلگت کے راجا،شاہ رئیس خان کو مقرّر کیا گیا۔ عبوری حکومت نے انتظامی اُمور چلانے کے لیے پاکستان سے منتظم بھیجنے کی درخواست کی، تو 16 نومبر کو سردار محمّد عالم نے پاکستان کی جانب سے بطور پولیٹیکل ایجنٹ ،گلگت ایجینسی کا انتظام سنبھالا۔ بعدازاں، گلگت بلتستان کے دیگر علاقے بھی آزاد ہوکر ایجینسی کا حصّہ بنے۔یہاں یہ پہلو قابلِ ذکر ہے کہ گلگت کا علاقہ مہاراجہ کشمیر کے ہاتھ سے نکل جانے سے ایک ہفتہ قبل، یعنی 24 اکتوبر1947ء کو سردار محمّد ابراہیم خان کی قیادت میں جمّوں و کشمیر کی آزاد حکومت قائم ہوچکی تھی۔ پاکستان نے اس حکومت کو پوری ریاست جمّوں وکشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کیا ۔ تاہم، اس حکومت کا دائرہ کار آزاد جموں و کشمیر کے علاقوں تک محدود ہے۔ پاکستان نے اپریل1949ء میں حکومتِ آزادکشمیر اور مسلم کانفرنس کے ساتھ معاہدۂ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام اپنے پاس رکھااور گلگت بلتستان کے انتظامی امور کی نگرانی ،افسر شاہی (Bureaucracy) کے ذریعے کی۔ اس سلسلے میں پاکستان کی وزارت برائے امورِ کشمیر و شمالی علاقہ جات کا کلیدی کرداررہا ۔ اس وزارت کے جوائنٹ سیکریٹری کو گلگت بلتستان کے ریذیڈنٹ کا عہدہ دیا گیا اور تمام انتظامی امور ان کے حوالے کر دئیے گئے۔
یہاںعوامی نمائندوں کی انتظامی یا سیاسی امور میں شمولیت کے لیےپہلی مرتبہ دسمبر 1970ء میں انتخابات ہوئے۔ جنرل یحییٰ خان کے عہد میں گلگت بلتستان کا پہلا 14رکنی منتخب ادارہ مشاورتی کاؤنسل(Advisory Council)کے نام سے قائم ہوا تھا۔ یہ ادارہ ریذیڈنٹ کے ماتحت تھا اور ترقیاتی منصوبوں کے سلسلے میں مشاورت کا اختیار رکھتا تھا۔ بعدازاں، ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں اس علاقے کا دَورہ کیا اور اس خطّے کے لیے دُوررس اصلاحات متعارف کروائیںاور انگریز دَور کے قانون ،فرنٹیئرکرائم ریگولیشن (FCR) کے خاتمے کے ساتھ یہاںسے جاگیرداری اور ایجینسی نظام کا خاتمہ کرکےاس کی جگہ ضلعی نظام متعارف کروایا۔ 1975ء میں مشاورتی کاؤنسل کو شمالی علاقہ جات کاؤنسل کا نام دیا گیا اور اس کے ارکان کی تعداد 16کردی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور میں1981ء میں جب مجلسِ شوریٰ کا قیام عمل میں لایا گیا، تو شمالی علاقہ جات کاؤنسل کے تین ارکان بھی اس مجلس میں شامل کر دئیےگئے۔بعد ازاں، 1994ء میں بے نظیر بھٹو کے دَورِ اقتدار میںگلگت بلتستان کے لیے ناردرن ایریاز لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) جاری کیے گئے،جن کے تحت شمالی علاقہ جات کاؤنسل کو مزید بااختیار بنادیا گیااوراس کی عمومی نشستوں کی تعداد 16 سے بڑھاکر 24 کردی گئی۔ اسی طرح ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ بھی متعارف کروایا گیا۔ چیف ایگزیکٹیو ،پاکستان کی وزارت برائے امورِ کشمیر و شمالی علاقہ جات کا وفاقی وزیر ہوتاتھا۔ ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کا انتخاب کاؤنسل کے منتخب ارکان میں سے کیا جانے لگا۔ بعدازاں، لیگل فریم ورک آرڈر میں ترمیم کر کےشمالی علاقہ جات کاؤنسل کو ’’قانون ساز کاؤنسل ‘‘کا نام دیا گیا۔ جس کے انتخابات 1970ء سے 2004ء تک مسلسل 9 مرتبہ منعقد ہوئے۔
پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں، 2007ء میں شمالی علاقہ جات قانون ساز کاؤنسل مزیدبااختیار بنانے کے لیےاسے قانون ساز اسمبلی کا درجہ دے دیا گیا اور اس کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کو چیف ایگزیکٹیو بنادیا گیا۔ بعد ازاں، پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کے عہدِ صدارت کے دوران 2009ء میں گلگت بلتستان خود مختاری و خود حکومتی ضابطہ (Gilgit-Baltistan Empowerment and Self-Governance Order 2009) جاری کیا۔ جس کے تحت پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں وزیرِ اعلیٰ اور گورنر کے عہدے متعارف کروائے گئے۔ اسی ضابطے کے تحت اس خطّے کو پہچان دینے کے لیے شمالی علاقہ جات کا نام”گلگت بلتستان“ رکھا گیا۔ اس آرڈر کے تحت گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے پہلے انتخابات نومبر 2009ء اور دوسرے انتخابات جون2015ء میں منعقد ہوئے۔ جن میں بالترتیب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں بنیں ۔
مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دَورِ حکومت میں مرکزی حکومت کی جانب سے ’’گلگت بلتستان آرڈر2018ء ‘‘کا اجرا کیا گیا، جس کے تحت یہاںکی قانون ساز اسمبلی کو گلگت بلتستان اسمبلی کا نام دیا گیا اور وزیرِ اعظم کی سربراہی میں گلگت بلتستان کاؤنسل سے قانون سازی، مالیاتی اور انتظامی اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی اور حکومت کو تفویض کردئیے گئے۔ وزیرِ اعظم پاکستان کو گلگت بلتستان کے چیف ایگزیکٹیو کا درجہ ملا اور گلگت بلتستان اسمبلی کے بنائے گئے کسی بھی قانون کو مسترد کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔جس کی عوامی سطح پر مخالفت بھی کی گئی ۔ بعدازاں، گلگت بلتستان کاؤنسل کے مقامی رکن، سید افضل کی درخواست پر گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ نے اس حکم نامے کو معطّل کردیا، جس پر حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا۔سو، عدالتِ عظمیٰ نے مختلف ترامیم کے ساتھ اسے ’’گلگت بلتستان ضابطۂ اصلاحات2019ء ‘‘کی صُورت دوبارہ بحال کردیا۔
گلگت بلتستان میں انتخابات 2020ءایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب اسے پاکستان کا عبوری آئینی صوبہ بنانے کی باتیں زبان زدِ ِعام ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت، اپوزیشن جماعتوں، کشمیری حرّیت قیادت اور قومی سلامتی کے اداروں کے درمیان تبادلہ خیال کی خبریں زینت بنتی رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گلگت بلتستان فی الوقت سرزمینِ بے آئین ہے۔ گرچہ پاکستان کی وفاقی حکومتوں نے اس کی خود مختاری کےلیےبتدریج اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔ تاہم، اب تک اسے حکم ناموں (Orders) کے ذریعے ہی چلایا جا رہا ہے۔اس خطّے کو آئینی صوبہ بنانے یا اسے پارلیمنٹ میں نمائندگی دلوانے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس سرزمین کا بین الاقوامی سطح پر جمّوں و کشمیر سے منسلک ہونا ہے۔ چوں کہ گلگت بلتستان، ریاست جمّوں و کشمیر کا حصّہ رہا ہے ، توپاکستان سلامتی کاؤنسل کی قرار دادوں کی روشنی میں یہاں رائے شماری کا خواہاں ہے۔جب کہ بدقسمتی سے سات عشرے گزرنے کے باوجود ریاست جمّوں و کشمیر کے باشندے اپنے سیاسی مستقبل کے تعیّن کے لیے رائے شماری کی راہ تک رہے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر ریاست جمّوں و کشمیر میں منصفانہ رائے شماری کروائی جائے ،تو اس ریاست کا الحاق بھارت سے کبھی نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے رائے شماری کروانے یا اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنےکی کبھی سنجیدہ کوششیں ہی نہیں کیں۔ اب تو مقبوضہ جمّوں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے وہاں آبادی کا تناسب بھی بگاڑا جا رہا ہے، تاکہ منصفانہ رائے شماری کی تمام راہیں مسدود کردی جائیں۔مگریہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بھارت کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں، تو پاکستان کے زیرِ انتظام ریاست جمّوں و کشمیر کے علاقوں میں رہائش پذیر باشندے کب تک اپنی متنازع حیثیت کے ساتھ زندگی گزارتے رہیں گے…؟ 1974ء میں آزاد جمّوں و کشمیر کو عبوری آئین دیا گیا تھااور اب گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنایا جا رہا ہے۔ کیا یہ’’عبوری دَور‘‘ کبھی ختم ہوگا؟ پاکستان کے پالیسی سازوں کو جان لینا چاہیے کہ یہ وقت عبوری یا عارضی اقدامات کرنے کا نہیں، اب فیصلہ کن اور حتمی اقدامات کی ضرورت ہے۔ گزشتہ برس 5اگست 2019ء کے بعد پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے تناظر میں سفارتی سطح پر بھرپور مہم چلائی ۔ وزارتِ خارجہ کے علاوہ خود وزیرِ اعظم عمران خان بھی متحرک ہوئے ۔ لیکن وقت کے ساتھ ہماری گرم جوشی، سرد مہری کی لپیٹ میں آگئی۔ یقیناً اس دوران پاکستان کو اندرونی و بیرونی سطح پر دیگر مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حکومت مشکلات کا شکار ہوئی، ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی لٹکتی رہی۔ یہ منظر نامہ دیکھتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آزاد جمّوں و کشمیر کی ریاستی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر نمایاںکردار دیا جائے، تاکہ کشمیر کا مقدمہ مکمل یک سوئی کے ساتھ ، منظّم و مربوط طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ آزاد کشمیر حکومت کی معاون ضرور بنے، لیکن فرنٹ لائن پر ریاست جمّوں و کشمیر کی قیادت کو متحرک کرے۔جہاں تک آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان کی خود مختاری یا آئینی حقوق کا سوال ہے، تو اس ضمن میں ان علاقوں کی بین الاقوامی حیثیت کو نقصان پہنچائے بغیر، انہیں قانون سازی، مالیاتی اور انتظامی امو رکے سلسلے میں مکمل خود مختاری دینی چاہیے۔لہٰذاعبوری یا عارضی نظام پر وقت اور صلاحیتیں صرف کرنے کی بجائے فیصلہ کُن اور حتمی اقدام کی تیاری کی جائےتو بہتر ہوگاکہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے مسائل ریاست جمّوں و کشمیر کے مستقبل کے حتمی تعیّن سے جُڑے ہیںاوران میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ تاہم ، خطّے کی متنازع حیثیت کے خاتمے سے قبل ان مسائل کا کلّی طور پر خاتمہ ناممکن ہے۔