• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ دن قبل متحدہ عرب امارات کے نائب صدر ، وزیراعظم اور دبئی کے حکمراں شیخ محمد بن راشد آل مکتوم کی جانب سے گولڈن ویزہ کا اعلان کیا گیا ہے، اپنے ایک ٹوئٹ میں انہوں نے پی ایچ ڈی ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے اور میڈیکل ڈاکٹرزکو دس سال کیلئے گولڈن ویزے کیلئے اہل قرار دے دیا ہے۔ کمپیوٹر، الیکٹرانکس، پروگرامنگ، الیکٹریکل اور بائیو ٹیکنالوجی انجینئر بھی گولڈ ن ویزہ حاصل کرسکیں گے، علاوہ ازیں مصنوعی ذہانت میں خصوصی اسناد رکھنے والے، بڑے اعداد وشمار اور وبائیات کی ڈگریوں کے حامل افراد بھی گولڈن ویزے کے لئے درخواست دے سکیں گے۔ شیخ آل مکتوم کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی ترقی اور کامیابیوں کے عمل میں عالمی ٹیلنٹ کی موجودگی یقینی بنانے کیلئے تعلیمی اداروں کے ٹاپ پوزیشن ہولڈرز کو بھی بمعہ فیملی گولڈن ویزہ دیا جائے گا۔متحدہ عرب امارات ہماری آزادی کے چوبیس برس بعد معرضِ وجود میں آیا، امارات ایئرلائن کی بنیادیں ہماری قومی ایئرلائن پی آئی اے کے پائلٹوں اور فضائی ماہرین نے مضبوط کیں۔ دبئی، شارجہ، ابوظہبی و دیگر اماراتی ریاستوںمیں واقع بلند وبالا عمارتیں،کشادہ سڑکوں کے جال ، برق رفتار سفری سہولتوں پر مشتمل دنیا کے بہترین انفراسٹرکچرکو عملی جامہ پہنانے کیلئے پاکستانی مزدوروں نے اپنا خون پسینہ بہایا۔ تاریخی طور پر 1971 میں معرض وجود میں آنے والے متحدہ عرب امارات کی بنیادیں بانی شیخ زاید بن سلطان النہیان نے جدید طرز زندگی کو مدنظررکھتے ہوئے استوار کیں،یواے ای کو غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے پرکشش پالیسیوں کی بناء پر خطے کی مستحکم ترین اقتصادی قوت سمجھا جاتا ہے، تاہم میری نظر میں یواے ای کی اصل طاقت صبروتحمل، برداشت اور رواداری پر مبنی طرززندگی کو فروغ دینے کیلئے حکومتی پالیسیاں ہیں، متحدہ عرب امارات دنیا کا واحد ملک ہے جہاں باقاعدہ طور پر وزارت برائے برداشت و رواداری قائم ہے، مذکورہ وزارت کے تحت مختلف مثبت سماجی اقدامات کئےجاتے ہیں، گزشتہ برس یواے ای نے سال 2019ء کو ایئر آف ٹولرنس (برداشت کا سال) قرار دیتے ہوئے ورلڈ ٹولرنس سمٹ کا انعقاد کرایا، متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے پاکستان سے واحد نمائندگی کیلئے مجھے خصوصی مہمان کے طور پر بلایا گیا جہاں میں نے میڈیا کی طاقت کومعاشرے میں برداشت اور رواداری کے فروغ کیلئے استعمال کرنے پر اظہار خیال کیا۔اس حوالے سے میںروزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے ہفتہ وار کالم بعنوان برداشت اور رواداری کی سرزمین بتاریخ 14نومبر 2019ء میں تفصیلی تذکرہ کرچکا ہوںکہ یواے ای کے بانی حکمراں شیخ زاید کا کہنا تھا کہ اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے، اسلئے امارات میں بسنے والے سب لوگوں کو ملکی قوانین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی مرضی کا رہن سہن اختیار کرنے کی آزادی ہونی چاہئے، ایک اچھے حکمراں کا فرض ہے کہ وہ ایسی ریاستی پالیسیاں وضع کرے جن کے تحت کوئی کسی دوسرے پر اپنی رائے یا مرضی مسلط نہ کرسکے۔رواں برس یواے ای کی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خبر نے پاکستان میں بہت سوں کو حیران کردیاتھا، تاہم گزشتہ برس متحدہ عرب امارات کی اعلیٰ قیادت نے ورلڈ ٹولرنس سمٹ کے موقع پر جس شاندار انداز سے دنیا بھر کے مندوبین کی میزبانی کی تھی، اس سے میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ موجودہ قیادت مرحوم شیخ زاید کے امن پسندانہ وژن کو مزید آگے بڑھانے کیلئے اپنے ریاستی مفادات کو ترجیح دینا چاہتی ہے، یواے ای کے ریاستی مفادات میں اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانے کیلئے علاقائی تصادم سے گریز سرفہرست ہے۔ابھی کچھ دنوں قبل متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور قرقاش نے بھی واضح کردیا ہے کہ اگرچہ ان کا ملک علاقے کے کچھ مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی کی حمایت نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود یو اے ای ان ممالک کے مقابل آنا نہیں چاہتا۔ متحدہ عرب امارات میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مابین مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے انٹرفیتھ کمپاؤنڈ کی تعمیر بھی زوروشور سے جاری ہے، یہاں پر مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں بشمول مسجد، گرجا گھر اور سیناگاگ ایک ساتھ قائم کی جارہی ہیں، اسی طرح یواے ای کی ترقی و خوشحالی کیلئے ہندو کمیونٹی کی خدمات کے اعتراف میںپانچ سال قبل ابوظہبی کے کراؤن پرنس نے مندر کیلئے ساڑھے تیرہ ایکڑ رقبہ عطیہ کیا تھا، آج قدیم فن تعمیر کا شاہکار یہ ہندو مندر عظیم اماراتی حکمرانوں کی مذہبی ہم آہنگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔متحدہ عرب امارات کی ترقیوں کا سفر خلائی محاذ پر بھی جاری ہے، یواے ای نے رواں برس مریخ کی طرف خلائی مشن بھیج کر پہلے عرب ملک کا اعزازبھی اپنے نام کرلیا ہے، پچاس کروڑ کلومیٹر طویل سفر کے بعد اماراتی خلائی جہاز آئندہ برس فروری 2021 میں جب مریخ پر پہنچے گاتو اس وقت متحدہ عرب امارات کے قیام کی پچاسویں سالگرہ منائی جارہی ہوگی۔ افغانستان میں امن عمل کو یقینی بنانے کیلئے نیٹو افواج کے شانہ بشانہ اماراتی عسکری دستے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ عرب امارات کی حکومتی پالیسیاں دنیا کے ہر اس ملک کیلئے رول ماڈل ہیں، جو اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ آخر ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ہمیں پیچھے چھوڑ کر کیسے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں؟ایک زمانے میں اماراتی شہری حصول تعلیم اور کاروباری مقاصد کیلئے پاکستان آیا کرتے تھے، آج یو اے ای دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے گولڈن ویزے کا اعلان کررہا ہے، تجارتی سطح پر ترغیبات دے رہا ہے اور دوسری طرف ہم اپنے ملک کے قابل شہریوں کو تعصب کا نشانہ بنا رہے ہیں۔یواے ای تیزی سے بہترین مواقع کی سرزمیں میں ڈھل رہاہے اور ہم برداشت و رواداری پر مبنی اپنے روایتی معاشرے کی خود نفی کررہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب اپنے پیارے وطن میں برداشت اور رواداری کو فروغ دینے کیلئے آگے بڑھیں، پاکستان کے ہر شہر ی کو آئینی حدود میں رہتے ہوئے ترقی و خوشحالی کے سفر میں اپناعملی کردار ادا کر نا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین