لاہور(نمائندگان جنگ) تحریک لبیک کے سربراہ 54 سالہ ممتاز عالم دین علامہ خادم حسین رضوی جمعرات کی شام انتقال کر گئے۔ خاندانی ذرائع نے بتایا وہ گزشتہ چند روز سے بخار میں مبتلا تھے ، تیز بخار اور سانس اکھڑنے کی وجہ سے انھیں شیخ زید ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
ان کی وفات کی خبر سنتے ہی کارکنوں کی بڑی تعداد انکے گھر پہنچ گئی ، میت گھر پہنچنے کے بعد کسی نے شور مچا دیا کہ علامہ صاحب کی سانس چل رہی ہے جس پر وہاں موجود سب نے کلمہ طیبہ پڑھنا شروع کردیا اور علامہ خادم حسین رضوی کو فوری طور پر شیخ زید اسپتال دوبارہ لیجایا گیا لیکن ڈاکٹروں نے انکی موت کی تصدیق کردی۔
وزیر اعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر نے ان کے انتقال پر اظہار تعزیت کی ہے،اسپتال ذرائع کا کہنا ہے خادم حسین رضوی کو رات پونے 9 بجے کے قریب شیخ زید ہسپتال لایا گیا، خادم حسین رضوی ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کرچکے تھے، خادم حسین رضوی کی موت کی تصدیق کیلئے ای سی جی بھی کی گئی۔
فرانس میں حکومتی سرپرستی میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف فیض آباد انٹرچنیج پر احتجاج کے بعد دو روز قبل ہی خادم رضوی کی قیادت میں ٹی ایل پی نے حکومت سے مذاکرات کیے تھے۔ اسی دھرنے میں انہوں نے کارکنوں سے کہا تھا کہ میری طبیعت 5 روز سے ناساز ہے لیکن اس کے باوجود دھرنے میں شرکت کے لیے آیا ہوں۔
اسلام آباد میں دھرنے کے دوران ان کی طبیعت خراب ہوئی لاہور واپس پہنچنے کے بعد گزشتہ روز وہ انتقال کر گئے۔ علامہ خادم حسین رضوی کا تعلق پنجاب کے ضلع اٹک سے تھا۔ وہ 22 جون 1966 کو ’نکہ توت‘ ضلع اٹک میں حاجی لعل خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔
جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی جس کے بعدلاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔وہ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ شیخ الحدیث بھی تھے اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔
خادم حسین رضوی ٹریفک کے ایک حادثے میں معذور ہو گئے تھے اور سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے ہیں۔ خادم حسین رضوی نے گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستانی سیاست میں اہم مقام حاصل کیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ناموس رسالت کے معاملے پر کیے جانے والے شدید احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے ان کی جماعت تحریک لبیک پاکستان کو ملکی سطح پر پذیرائی ملی تھی، جبکہ عام انتخابات 2018 میں ٹی ایل پی ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔
تحریک لبیک انتخابات کے دوران لاکھوں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ بعد ازاں آسیہ بی بی رہائی کے معاملے پر خادم حسین رضوی اور دیگر ٹی ایل پی قائدین نے ملک میں احتجاج کے نام پر انتشار پھیلانے کی کوشش کی، جس پر انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
خادم حسین رضوی کو کئی ماہ جیل کاٹنے اور معافی نامے پر دستخط کیے جانے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔انکے پسماندگان میں ایک بیوہ ، دو بیٹے،چار بیٹیاں شامل ہیں، بڑا بیٹا محمد سعد رضوی عمر 22 سال نائب ناظم تحریک لبیک ہے اور تنظیمی معاملات کو سنبھالتا ہے، چھوٹا بیٹا محمد انس رضوی عمر 18 سال درس نظامی زیر تعلیم ہے۔
علامہ خادم حسین رضوی جامع مسجد رحمت العالمین میں رہائش پذیر تھے۔وزیر اعظم عمران خان نے خادم حسین رضوی کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔اپنے تعزیتی بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ مولانا خادم حسین رضوی کی رحلت پر میں انکے اہلِ خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔
تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے بھی خادم حسین رضوی کی وفات پر اظہار افسوس کیا اور بلندی درجات کی دعا کی۔وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایک بڑے عالم دین اور سچے عاشق رسول سے محروم ہوگیا، دین اسلام کے لیے ان کی خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور، مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے بھی علامہ خادم حسین رضوی کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
مرکزی نائب امیر تحریک لبیک پاکستان پیر سید ظہیر الحسن شاہ آف ہردیو شریف ، پیشوائے اہلسنت پیر محمد افضل قادری،پاکستان علماء کونسل کے سربراہ علامہ طاہر محمود اشرفی، جمعیت علماء پاکستان کے علامہ قاری محمد زوار بہادر،سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے بھی ان کی اچانک وفات پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہا کیا اور کہا کہ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے لئے ان کی خد مات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔