شاہد کے والدین اُسے اعلیٰ تعلیم دلا کر بڑے آدمی کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ خود دھوبی تھے لیکن شاہد سے کبھی کپڑے نہیںدھلواتے تھے۔ اُس کا تعلیمی ریکارڈ بہت اچھا تھا۔ تعلیم کے بعد وہ ملازمت کے لیے ایک کمپنی میں انٹرویو دینے گیا تو دوران ِانٹرویو اُسےایک سوال پوچھنے پر بہت حیرت ہوئی۔ایساکیا سوال تھا، جس نے شاہد کو جھنجھوڑ دیا ملاحظہ کیجیئے۔
شاہد ایک ذہین طالبعلم تھا، کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اُس نے ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں آئی ٹی مینجرکی جاب کے لیے درخواست دی، جس پر اُسے کمپنی میںتحریری امتحان کے لیے بُلایا گیا جو اُس نے اچھے نمبروں سے پاس کر لیا۔ اُس کا ابتدائی انٹرویو بھی بہت اچھا ہُوابعد ازاں اُسے فائنل انٹرویو کے لیےبلایا گیا، شاہد انٹرویو دینےگیا تو کمپنی کے ڈائریکٹر نے اُس کی سی وی دیکھ کر کہا، تُم نے ماسٹرکی ڈگری اے پلس مارکس کے ساتھ پاس کی ہے، یہ بتاؤ تمہیں کبھی کالج یا یونیورسٹی کی طرف سے اسکالر شپ ملی ہے؟۔
شاہد نے پریشان ہو کرجواب دیا ” نہیں سر مُجھے کبھی اسکالر شپ نہیں ملی”، ڈائریکٹر نے پھر پُوچھا ” تمہاری پڑھائی کی فیس کون ادا کرتا تھا؟”، ” سر میرے والدین میری فیس ادا کرتے تھے‘‘۔ شاہد نے کہا۔ ” تمہارے والدین کیا کام کرتے ہیں‘‘؟ ڈائریکٹر ” نے پوچھا۔ شاہد نےجواباََ کہا، ” سر ہم دھوبی ہیں۔ میرے والد لوگوں کے گھروں سے گندے کپڑے اکھٹے کرتے ہیں اور پھر گھر لاکر میری ماں کےساتھ اُن کو دھوتے ہیں”۔ ڈائریکٹر نے شاہد سے کہا "اپنے ہاتھ دکھاؤ”، شاہد نے ہاتھ دکھائے تو ڈائریکٹر نے کہا،’’ تمہارے ہاتھ تو بالکل صاف سُتھرے اور نرم و ملائم ہیں، تُم نے کبھی کپڑے نہیں دھوئے؟‘‘۔
” سر میرے والدین نے مُجھے کبھی کپڑے دھونے نہیں دئیےبس یہ چاہتے ہیں کہ میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنوں”۔ ڈائریکٹر نے شاہد سے کہا ”فی الحال ،کا انٹرویو یہیں ختم کرتا ہوں تُم آج گھر جاؤ اور اپنے والدین کے ہاتھ اچھی طرح دھو کر کل دُوبارہ میرے آفس آنا، باقی انٹرویو کل ہوگا”۔ شاہد پریشان گھر لوٹا۔ اُسے ایسا لگاا کہ شائد ماں باپ کے کام میں اُن کی مدد نہ کرنے پر باس اُسےملازمت نہیں دیں گے۔
اسی پریشانی میں وہ گھر پہنچا اور والد اور والدہ کو ساری بات بتائی، پھر دونوں کے ہاتھ دھونے کے لیے درخواست کی۔ بُوڑھے ماں باپ کے ہاتھ دھوتے ہُوئے شاہد کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے کیونکہ ان کے ہاتھ مسلسل پانی میں رہنے کی وجہ سے کھُردرے ہو گئے تھے اور ہاتھوں کی جلد جگہ جگہ سے کٹی ہُوئی تھی، اُس وقت اُسے پہلی بار احساس ہُوا کہ اُس کے والدین نے اس مُشکل کام میں کبھی اُس سے مدد کیوں نہیں مانگی اور ہمیشہ اُسے کتاب سے دوستی کرنے کا کیوں کہا”۔ اگلے دن شاہددوبارہ انٹرویو کے لیے گیا تو ڈائریکٹر نے شاہد سے پوچھا ،” آپ نے والدین کے ہاتھ دھوئے؟‘‘ یہ سُن کر شاہد کی آنکھوں میں آنسوآ گئے اُس نے جواب دیا، "جی سر میں نے اپنے ماں باپ ہاتھ دھوئے اور پھر اُس وقت جتنے کپڑے دھونے والے تھے وہ بھی دھوئے تھے‘‘۔ ڈائریکٹر نے پُوچھا ” مزید کُچھ کہنا چاہتے ہو؟‘‘
شاہد نے نم آنکھوں سے آنسو صاف کیے اور بولا ” جی سر، کل مُجھے احساس ہُوا کہ میرے والدین نے میری پڑھائی لکھائی کے لیے کتنی قُربانی دی، میں آج جو کُچھ ہُوں وہ اُن کی دن رات کی سخت تکلیف دہ محنت کی بدولت ہُوں۔ مُجھے اُن کے منع کرنے کے باوجود کام میں اُن کی مدد کرنی چاہیے تھی، اگرچہ بہت دیر لگی ، مگر اب میں اُنہیں تنہا کام نہیںکرنے دوں گا”۔
ڈائریکٹر نے شاہد کی طرف غور سے دیکھا اور پھرکہا، ” مُجھے اپنی کمپنی میں ایک ایسے مینجر کی ضرورت تھی، جس میں تعلیم کےساتھ ساتھ یہ احساس بھی ہو کہ دُوسرے افراد کی مدد کرنا اور اُن کی تکلیفوں کو سمجھنا کتنا ضروری ہے، ت اس ملازمت کے لیے تمھاری تعلیمی قابلیت قابلِ تعریف ہے اور اب تُم میں مدد کرنے کا احساس بھی بیدار ہو چُکا ہے، تُم ہماری کمپنی میں مینجر کی آسامی کے لیےبالکل پرفیکٹ ہو، میں یہ جاب تمہیں دیتا ہُوں۔ مبارک ہو‘‘۔
محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والے اور اُن کو فوقیت دے کراُن کی ہر خواہش پُوری کرنے والے والدین اکثر یہ بات نہیں جانتے کہ اس سے بچے کے اندر خودغرضی پیدا ہوگی اور اُسے کبھی احساس نہیں ہوگا کہ اُس کی ضروریات کو پُورا کرنے والے والدین خود کتنی تکلیف برداشت کرتے ہیں۔ بچوں کی تربیت میں سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ اُن کا احساس بیدار کیا جائے ، جس میں احساس مر جاتا ہے وہ چاہے دُنیا میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے مگر کبھی اچھا انسان نہیں بن سکتا۔