گلگت اور اسکردو اس خطے کے سب سے دلفریب علاقے ہیں۔ فضا میں ہر سمت دلکشی کے غول اٹکھیلیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وہ مناظر ہیں جن کی خاموشی، پراسراریت اور خوبصورتی صوفیاء کو ریاضت اور معرفت کے مرحلے طے کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ گلگت بلتستان صرف سرسبز زمین، سربفلک پہاڑوں اور دلکش نظاروں کا نام نہیں بلکہ وہاں کے باشندے بھی انتہائی حسین ہیں۔ معصوم، مخلص اور محبت کرنے والے بالکل فطرت کی طرح منافقت اور کثافت سے پاک۔ مجھے دو بار گلگت اور اسکردو جانے کا اتفاق ہوا ہے اور دونوں بار موسم کی خرابی کے باعث قیام مقررہ ایام سے طویل ہوتا رہا اس لئے مجھے ان لوگوں کی ثقافت، عادات و اطوار، مذہبی رجحانات اور سیاسی نظریات کو سمجھنے کا بخوبی موقع ملا۔ میں گلیوں محلوں میںگئی تو گزرتے ہوئے مجھے جس کسی نے دیکھا مہمان سمجھ کر کھانے کی دعوت دی۔ کئی گھروں کے کھلے دروازوں سے صحن میں دادیوں نانیوں اور بچوں کو دیکھ کر میں اجازت لے کر اندر گئی تو اخلاص کی پوٹلی لے کر لوٹی۔ قدم قدم پر جہاں حسین نظارے، زمین کی بناوٹ، پہاڑوں کی بلندی، وادیاں اور چشمے مجھے حیران کرتے رہے وہیں باسیوں کی مثبت فکر، تحمل اور قناعت نے بے حد متاثر کیا۔
گلگت بلتستان میں اکثر لوگوں کا مجھ سے یہی سوال تھا کہ انہیں مرکزی اسمبلی تک رسائی دی جائے اور گلگت کو مکمل صوبہ بنایا جائے۔ ان کے مؤقف کے مطابق وہ کبھی بھی کشمیر کا حصہ نہیں رہے اس لئے کشمیر کے ساتھ انہیں نتھی نہ کیا جائے۔ 1993 میں ہائیکورٹ نے اس علاقے کو جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا تو یہاں کے لوگوں کی شدید مزاحمت پر سپریم کورٹ نے اس آرڈر کو کینسل کر دیا۔ 14 اگست 1948کو بہادری اور حب الوطنی کے اسلحے سے قابض راج کو شکست دے کر پاکستان میں بخوشی شامل ہونے والے حیران ہیں کہ ابھی تک پاکستان نے انہیں اپنے اندر پوری طرح ضم کیوں نہیں کیا۔ 14 اگست کو جشنِ آزادی کے دن ہر گھر کی چھت، گاڑی، موٹر سائیکل، سائیکل بلکہ بچوں کے ہاتھوں میں بھی میں نے پاکستانی پرچم دیکھ کر سوچا آئینی حقوق میں تاخیر کا سبب کیا ہے۔
ہمیشہ سے بلتستان کے لوگ پاکستان میں حکومتی جماعت کو ووٹ دیتے رہے ہیں اور اس بار بھی وہی روایت برقرار رکھی گئی ہے۔ وہاں کسی مقامی، مذہبی اور لسانی بنیادوں پر کام کرنے والی سیاسی جماعت کی بجائے پاکستان کی بڑی اور وفاقی حیثیت کی حامل جماعتوں کو ہی ووٹ ڈالے گئے ہیں جو یہاں کے لوگوں کی وفاق سے محبت اور جڑت کا واضح ثبوت ہے۔ دنیا کی بلند ترین چوٹی کے۔ ٹو اور 14 ہزار فٹ کی بلند پر موجود جھیل وادیٔ ڈیسوئی ایک عجوبے سے کم نہیں۔ اس علاقے کی دفاعی اور سیاحتی اہمیت کے مدنظر اسے مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک نسل آنکھوں میں خواب سجائے دنیا سے رخصت ہو گئی ہے۔ موجودہ نسل کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ اس سے پہلے کہ یہ مایوسی بے بسی میں ڈھل جائے اس علاقے کے مسائل حل ہونے چاہئیں۔
2009 میں اس اکائی کو شمالی علاقہ جات کی بے نامی سے آزاد کر کے گلگت بلتستان کا نام دے کر ایک صوبائی وحدت کی شکل دی گئی مگر وزیر اعلیٰ، گورنر، چیف سیکرٹری کے باوجود وزیر اعلیٰ بلتستان وزیراعظم کی بجائے وزیر امورِ کشمیر کے ماتحت ہیں۔ سارا ڈھانچہ موجود ہے مگر وہ اختیار اور بجٹ نہیں جو دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے پاس ہے۔ ضرروت اس امر کی ہے کہ گلگت کو مکمل صوبے کے حقوق اور اختیارات دیئے جائیں۔ 70 سال سے التواکا شکار معاملات آج سنوارے نہیں جائیں گے تو کل دشمن انہیں کسی اور روپ میں سامنے لائیں گے۔ اسی طرح نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ آزاد کشمیر کو بھی مرکزی اسمبلی میں رسائی دی جائے تا کہ وفاقی وزیر کی بجائے وہ خود اپنا معاملہ بیان کریں اور دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے غیر انسانی رویوں کی جانب مبذول کرائیں اور کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت ممکن بنائیں۔ اگر آج کشمیر اور گلگت بلتستان کو مرکز میں نمائندگی دی جائے گی تو آنے والے دور میں یہاں سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما پاکستان کے وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں۔ اس بات میں دو رائے نہیں ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ان علاقوں کو مرکزی دھارے میں لانے میں کوتاہی ضرور کی ہے۔ وہ ارادی ہے یا غیر ارادی لیکن کوتاہی ہی کہلائے گی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ گلگت اور کشمیر کی مرکزی اسمبلی میں رسائی کے لئے فوری اقدامات کریں تا کہ پاکستان صحیح معنوں میں معاشی، سیاسی اور دفاعی حوالے سے ایک مضبوط قلعہ بن سکے اور ہم حقیقی خود مختاری کے رستے پر گامزن ہو سکیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)