• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پی ڈی ایم میں شامل ہر جماعت کا لیڈر موجودہ حکومت کو کٹھ پتلی کا نام دے رہا ہے، اس نام پراپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے خاندان متفق ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جوکبھی ایک دوسرے کا نام لینا بھی برداشت نہیں کرتے تھے،کسی آمر کی گود میں پلتے رہے توکبھی کسی ڈکٹیٹر کی انگلی پکڑ کراقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے جنہوں نے انہیں چلنا سکھایا،بعد اسی کے در پے ہوگئے جب بھی کسی آمر نے اپنی ٹیم بنانے کے لئے سیاستدانوں کو سلیکٹ کرنا ہوتا تھا تو اس کی کوشش ہوتی تھی کہ کوئی بہت ہی سادہ اور شریف سا انسان بطور کٹھ پتلی استعمال کیا جائے اور آج ہمیں جتنے بھی نمایاں سیاستدان نظر آتے ہیں ،وہ سب کے سب ایوب خان سے لیکر ضیاء الحق تک بطور کٹھ پتلی تیار کیے گئے تھے اور ہر آمر نے اپنی طرف سے کوشش کی تھی کہ اس کا جانشین عقل سے عاری، منافقت کا عادی اور خوشامدیوں کا منادی ہو۔ کچھ عرصہ تو یہ سیاستدان بھولے بھالے بن کر اپنا الو سیدھا کرتے رہے اوراپنے آقاؤں کورات کی تاریکی میں ملتے، انہیں اقتدار پر قبضے کی دعوت دیتے تھے اور جب وہ آجاتے ہیں تو پھر 10سال سے زائد عرصہ تک برسراقتدار رہتے ہیں۔اس دوران گیٹ نمبر4کی پیداوار بڑی بڑی سیاسی شخصیات انہیں اپنی بھر پور حمایت کا یقین دلاتیں تاکہ انہیں بھی کسی نہ کسی جگہ فٹ کیا جاسکے۔ مجھے شیخ رشید کی باتیں یاد آجاتی ہیں،وہ اکثر کہتے ہیں کہ ہمارے جتنے بھی سیاستدان ہیں،وہ گیٹ نمبر4کی پیداوار ہیں اور انہیں ان سب کی حیثیت اور حقیقت کا بخوبی علم ہے، اسی لئے تووہ ہر بات برملا کہہ دیتے ہیں۔جس طرح پی ڈی ایم کا اتحاد کئی جماعتوں پر مشتمل ہے، اسی طرح ان کے ذاتی مفادات کا بیانیہ بھی الگ الگ پردے میں لپٹاہوا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جب سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر بھارتیوں کے بیانیے کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کے اداروں پر چڑھ دوڑے کی۔ا ایاز صادق سلیکٹڈ نہیں تھے اور ان کے پارٹی قائدین بھی تو سلیکٹڈ ہیں، پہلے جی ایچ کیو کی نرسری کے لئے سلیکٹ ہوئے بعد میں اقتدار کے لئے سلیکٹ کیے گئے اور پھر اپنی اپنی پارٹیوں کے لئے سلیکٹ ہو گئے۔ سردار ایاز صادق کی نازیبا گفتگو اور میاں نواز شریف کے بیانیے کے خلاف (ن)لیگ کے سابق ایم این اے سردار منصب ڈوگر اور ایم پی اے میاں جلیل شرقپوری نے پارٹی چھوڑدی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نواز شریف کے ملک دشمن بیانیے کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔ نیز بلوچستان سے جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ اور سردار ثنا ء اللہ زہری اس بیانیہ کی وجہ سے پارٹی چھوڑ چکے ہیں ۔اس وقت ملک میں جتنی بھی سیاسی یا مذہبی جماعتیں ہیں، وہ سب آمریت کی بدترین مثالیں ہیں۔ہاں اگر کوئی جماعت جمہوری طریقوں پر گامزن ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے جس میں باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں اور پھر ان کے عہدیدار منتخب کیے جاتے ہیں۔پی ٹی آئی بھی پارٹی میں الیکشن کرواتی ہے مگر یہاں عمران خان کی مقبولیت آخری حدوں کو چھو رہی ہے اس لئے وہی منتخب کرلیے جاتے ہیں۔ رہی بات مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی ،ان جماعتوں میں نہ جمہوریت ہے بلکہ سلیکشن کی پیداوار یہ جماعتیں اپنے اپنے مفادات کے لئے کبھی نواز زرداری بھائی بھائی بن جاتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں ۔اس وقت دونوں پارٹیاں اقتدار کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔پی ڈی ایم کے تینوں جلسوں میں ریاستی ادارے کے سربراہان کے خلاف بڑی سخت زبان استعمال کی گئی،کسی کے خلاف تنقید، دائرے میں رہتے ہوئے کرنا، اصلاح کا پہلو شمار کیا جاتا ہے، لیکن وہی عمل جب اقدار سے ہٹ کر کیا جائے تو اس پر سوال ضرور اٹھتے ہیں، عمران خان جب اپوزیشن کی سیاست کرتے تھے، تو انہوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف متعدد مواقع پر سخت بیانیہ اپنایا۔ اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی بیانیہ تبدیل ہوکر ریاستی بن گیا۔اسی طرح پی ڈی ایم کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جب تک اقتدار میں رہیں، انہوں نے بھی ریاستی اداروں کے سربراہان کے خلاف وہ طرز عمل اختیار نہیں کیا، جو اب انہوں نے اپنی ہارڈ لائن بنا لی ہے ۔پی ڈی ایم اگلے ماہ جلسوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کررہی ہے۔ پی ڈی ایم اپنے جلسوں کے دوسرے فیز میں حقیقی اپوزیشن ہونے کا مظاہرہ کرے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا، کیونکہ پہلے فیز کے جلسوں کے بعد حزبِ اختلاف کی پارلیمان میں شرکت نے اس تاثر و بیانیے کو کھو دیا ہے کہ’’موجودہ حکومت غیر آئینی ہے اور وہ ایسی غیر فعال پارلیمنٹ کو نہیں مانتے،جہاں قانون سازی نہیں ہوتی‘‘۔ حکومتی پالیسیوں کی غلط سمت پر پارلیمنٹ کے ساتھ جلسوں سے بھی دباؤ بڑھایا جاسکتا ہے، لیکن حکومت گرانے کیلئے آئین میں جو طریقہ دیا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دوسرے دروازے سے آنا،نیک شگون نہیں قرار دیا جاسکتا اور اب وزیر اعظم عمران خان نے سینٹ کے الیکشن شو آف ہینڈ سےکرانے اور آئندہ الیکشن میں الیکٹرونک ووٹنگ نظام لانے اور اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیلئے انتخابی نظام میں تبدیلیوں کا کہا ہے اور اپوزیشن کو دعوت دی ہے کہ وہ ان ترامیم کے لئے اپوزیشن کا تعاون چاہتے ہیں۔ اب گیند اپوزیشن کی کورٹ میں چلی گئی ہے۔دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کر تے ہیں؟آجکل یوکرین سےگیہوں کی 5لاکھ میٹرک ٹن کی خریداری 286ڈالر میں کرنے کابہت چرچا ہے ،جو ایک گھٹیا کو الٹی کا سوداہے، جبکہ اچھی کوالٹی کی گیہوں 271ڈالرمیں اِدھا (IDHA) امریکن سرخ کوا لٹی کی دستیاب ہے ،مگر اس کو نظر انداز کر کے پی ٹی آئی حکومت عجلت میں در آمد کر رہی ہے۔ 15ڈالر مہنگا خرید کر عوام کو مہنگا گیہوں جو کم تر درجے کا بھی ہے، فراہم کریں گے۔جس سے ماضی کی حکومتوں پر اندرونی کمیشن لگانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

تازہ ترین