• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا کی عالمی وبا کی دوسری لہر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان میں بھی اِس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد متواتر بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب ملک میں حکومت اور اپوزیشن کی جنگ میں مسلسل شدت آتی جا رہی ہے۔ نہ صرف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے بننے والا گیارہ جماعتی سیاسی اتحاد یکے بعد دیگرے ملک کے مختلف شہروں میں جلسے منعقد کررہا ہے بلکہ اِس اتحاد میں شامل نہ ہونے والی جماعت اسلامی نے بھی عوامی اجتماعات کی شکل میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ مقامی انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے باوجود پشاور میں پی ڈی ایم کے جلسے کا پنڈال سج چکا ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے بھی اعلان کیا ہے کہ اتوار کو سوات میں طے شدہ پروگرام کے مطابق احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان کا موقف ہے کہ یہ وہی پی ڈی ایم ہے جو سخت لاک ڈاؤن چاہتی تھی، پہلے یہ حکومت پر تنقید کرتے تھے، اب لوگوں کی صحت کے ساتھ لاپروائی سے سیاسی کھیل، کھیل رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اسد عمر کے بقول پشاور جلسہ پی ڈی ایم کے دوغلے پن کا مظہر ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے وارننگ دی ہے کہ کورونا کے کیس بڑھے تو اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر کاٹیں گے جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ناجائز حکمران بذاتِ خود کورونا ہیں، پشاور میں تاریخی جلسہ ہو کر رہے گا، عوام کے ووٹ چوری کرنے والوں کو آرام سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ پی ڈی ایم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان بچانے نکلے ہیں۔ کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ محمودخان اچکزئی، امیر مقام، فیصل کنڈی اور رانا ثناء اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے این آر او مانگا تھا، پی ڈی ایم نے مسترد کردیا، پہلے کووڈ اٹھارہ ختم کریں گے، پھر کووڈ انیس سے نمٹیں گے، حکومتی کورونا بچ گیا تو لوگ مرجائیں گے جبکہ ہفتے کو لاہور میں علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے میں لاکھوں افراد کی شرکت پر وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنا کوئی مذاق نہیں، تحریکِ لبیک نے لاہور کو کورونا بم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اب ن لیگ اور پیپلز پارٹی پشاور سے ملتان تک حشر برپا کریں گی۔ ایک حکومتی ترجمان نے اِس امر کی نشاندہی کی ہے کہ بختاور بھٹو زرداری کی منگنی کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کیلئے کووڈ ٹیسٹ کا منفی ہونا لازمی قرار دیا گیا تھا لیکن جلسوں کے انعقاد پر اصرار کرکے عوام کی جانوں کو بےدریغ خطرے میں ڈالا جارہا ہے۔ آزاد کشمیر میں ن لیگ کی حکومت کی جانب سے دو ہفتوں کیلئے لاک ڈاؤن کے فیصلے کو بھی حکومتی وزراء نے اپوزیشن کے دوہرے معیار کی ایک نمایاں مثال قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کورونا کی وجہ سے لاحق خطرات کے باعث حکومت اور اپوزیشن دونوں کو آئینی حدود میں اپنے اختلافات حل کرنے کے لئے جلد از جلد افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ گرینڈ قومی ڈائیلاگ ہی اِس صورت حال سے نکلنے کی واحد تدبیر ہے۔ پی ڈی ایم کے مرتب کردہ میثاقِ پاکستان نے اِس مکالمے کے لئے ایک واضح بنیاد فراہم کردی ہے لیکن آج سیاسی اختلافات جس طرح دشمنی میں بدل چکے ہیں، اُس کی بناء پر خود سیاستدانوں کیلئے اِس راستے پر آنا مشکل ہے۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد پہلے خطاب میں اِس وسیع تر قومی مکالمے کی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری موجودہ عدالتی قیادت اس تجویز پر فوری پیش رفت کرتے ہوئے اختلافات کا حل سڑکوں کے بجائے مذاکرات کی میز پر ممکن بنائے اور یوں محض کورونا نہیں بلکہ ہر حوالے سے قومی سلامتی و استحکام کی ضمانت کا اہتمام کرے۔

تازہ ترین