گزشتہ ہفتے میں نے اپنے کالم میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے گولڈن ویزے کے اجرا کو سراہا تھا، اسی طرح میں نے روزنامہ جنگ میں شائع کردہ اپنے ہفتہ وار کالم بتاریخ 20اگست 2020ء بعنوان ’’خطے کی بدلتی صورتحال!‘‘میں بھی یواے ای اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کے قیام کی خبروں پر تبصرہ کیا تھا کہ خارجہ محاذ پر کسی بھی ملک کا کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا بلکہ اس کے مفادات مستقل ہوتے ہیں، اپنے ملکی مفادات کے حصول کی جدوجہد میں دوست اوردشمن بدلتے رہتے ہیں۔تازہ اطلاعات کے مطابق یواے ای حکومت نے پاکستانی شہریوں کیلئے ویزے کا اجرا عمل معطل کردیا ہے، پاکستان سمیت کچھ دیگر ممالک پر حالیہ پابندی کی وجہ کورونا وائرس کی صورتحال کو بتایا جارہا ہے، تاہم شدید متاثرہ ملک بھارت کو اس فہرست سے باہر رکھنا کچھ اور پس پردہ عوامل کی نشاندہی کرتا ہے۔خطے میں بدلتی صورتحال کے حوالے سے ایک اور بڑی خبر اسرائیلی وزیراعظم کا مبینہ دورہ ِ سعودی عرب ہے، اسرائیل کا حالیہ اقدام اس وقت عالمی میڈیا کی خبروں کی زینت بنا ہوا ہے، پاکستانی میڈیا میں بھی اس کی بازگشت سنی جارہی ہے، پاکستان میں ٹوئٹر پر اسرائیل کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈبن چکا ہے، کچھ ٹی وی اینکرز کی ذاتی رائے پر مبنی ٹوئٹس اور میڈیا انٹرویوبھی زیربحث ہیں،تاہم سعودی عرب کی جانب سے ایسی خبروں کی تردید کی جارہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی عوام کی اسرائیل مخالفت کی بڑی وجہ فلسطینیوں کے ساتھ غیرمنصفانہ سلوک ہے،آزادی کے بعد پاکستان نے اپنا نظریاتی تشخص برقرار رکھنے کیلئے عرب دنیا کی طرف دیکھنا شروع کیا، سرد جنگ کے اس زمانے میں جنگ عظیم دوئم کے دو اتحادی ممالک امریکہ اور سویت یونین اب ایک دوسرے کے کٹر مخالف بن چکے تھے، عرب ممالک کی اکثریت سویت بلاک میں شامل تھی جبکہ پاکستان، سعودی عرب ، ایران اور اسرائیل امریکی کیمپ میں شامل تھے،تاہم امریکہ کے اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان اور سعودی عرب اسرائیل کے وجود سے انکاری تھے۔سویت نواز عرب ممالک کی جب اسرائیل سے جنگ چھڑی تو پاکستان نے فلسطین کاز کی خاطرعربوں کا بھرپور ساتھ دیا، جنگ کے دوران اسرائیلی جنگی جہاز گرانے کا شرف صرف پاکستانی جانباز ہوابازوںکو حاصل ہوا، اسی طرح سفارتی محاذ پر پاکستان کا دیرینہ موقف عرب ممالک سے ہمیشہ ہم آہنگ رہاہے، آج بھی وزیراعظم عمران خان کے اسرائیل کے حوالے سے بیانات ہماری فلسطین کے ساتھ جذباتی وابستگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں میں زمینی حقائق تیزی سے بدل رہے ہیں،ایک زمانہ تھا کہ نکسن ڈاکٹرائین کے تحت سعودی عرب اور ایران کو سپرپاور امریکہ کے خطے میں مفادات کے تحفظ کیلئے ٹوئین پلرز (جڑواں ستون) کا درجہ حاصل تھا،خطے میں اسرائیل کا قریبی اتحادی ایران تھا، تاہم پھر وقت کا پہیہ گھوما اور آج ایران امریکہ کا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے اور بعض عرب ممالک ایران کو خطرہ گردانتے ہوئے ازلی دشمن اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملا رہے ہیں۔ اسرائیل اور ترکی کے قریبی تعلقات بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن آج دونوں ممالک بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں،اسی طرح ماضی کی سپرپاور سویت یونین قصہ پارینہ بن چکی ہے،ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جو ماضی میں سویت یونین کا اہم اتحادی اور فلسطینیوں کا قریبی دوست سمجھاجاتا تھا، آج امریکہ کا اتحادی ہے ۔ تاریخی طور پر پاکستان مشرقِ وسطیٰ میں ہمیشہ سے سعودی عرب ، یواے ای اور دیگر عرب ممالک کا حمایتی رہا ہے، مڈل ایسٹ کو ترقی یافتہ بنانے کیلئے پاکستانیوں نے اپنا خون پسینہ بہایا ہے، اسے وقت کی ستم ظریفی ہی کہاجاسکتا ہے کہ بعض ممالک پاکستان کی قربانیوں کو ٹھکراتے ہوئے اسرائیل اور بھارت کے قریب آنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ سعودی عرب آج بھی ہمارے سب سے قریبی اورقابل اعتماددوستوں میں شامل ہے جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے،میں نے یمن کے معاملے پر پاکستان ہندوکونسل کے پلیٹ فارم سے یہ موقف اپنایا تھا کہ تمام پاکستانیوں کی مقدس سرزمین کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے، ہمیں سعودی عرب کے تحفظ کیلئے اپنی افواج وہاں بھیجنی چاہئے۔ ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سفارتی فیصلے کرے لیکن ہمارے کچھ حلقوں کی جانب سے غیرذمہ دارانہ طور پر تنقید کے نشتر برسانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے کچھ ناعاقبت اندیش ہموطنوں نے برداشت ، رواداری اور سفارتی آداب کو نظرانداز کرکے دوسروں کے خلاف نفرتیں پھیلانے کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے، اسکا خمیازہ پوری پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑتا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں دوسرے ممالک کے بارے میں غیرضروری بیانات دینے سے گریز کرتے ہوئے زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا چاہئے کیونکہ ہماری اپنی غلطیوں اور بے احتیاطی کے سبب ماضی کے ہمارے دوست ہم سے دور ہوتے جارہے ہیں، عالمی سطح پر جارحانہ بیانات ہمارے قومی موقف کوکمزور کررہے ہیں اوردیگر ممالک ہمیں اپنے مستقبل کے عزائم کی راہ میں بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے سفری پابندیاںعائد کررہے ہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ ہم جوش و جذبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنا محاسبہ کریں کہ آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟