تعلیم انسانی اقدار کو فروغ دینے اور انسان میں شعور دلانے کا اہم ذریعہ ہے، خواہ وہ سیاسی ہو، معاشی، کاروباری ، دینی ہو یا دنیاوی ہر شعور کی بنیاد تعلیم پر ہوتی ہے۔ کسی بھی ریاست کی بنیاداس کا نظام تعلیم اور نصاب ہوتاہے۔کوئی بھی ملک وسائل سے نہیں بلکہ تعلیم سے ترقی کرتا ہے، کیوں کہ تعلیم ہی ان وسائل کو استعمال کرنے کا طریقےسکھاتی ہے۔
علم ہمیشہ سےمہذب قوموں کی اولین ترجیح رہا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں وہاں کے تعلیم یافتہ طبقے کا سب سے زیادہ ہاتھ ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی نظام یکساں ہے۔ لیکن ہم آج بھی انگریزوں کے بنائے ہوئے تعلیمی نظام کو ہی چلا رہے ہیں۔ ہمیں انگریزوں کے دیئے ہوئے استعماری نظام تعلیم سے چھٹکارا پا کر آزاد ملک کی ضرورتوں سے ہم آہنگ نظام تعلیم کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ یکساں نظام تعلیم کے تحت ہی معاشرہ ہم آہنگی کے ساتھ ترقی کر سکتا ہے۔ طبقاتی نظامِ تعلیم معاشرے کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے تعمیر و ترقی ممکن نہیں۔یکساں ںنصاب تعلیم کا مطالبہ تو ایک عرصے سے پوری قوم کرتی آ رہی ہے لیکن اب تک کسی نے توجہ نہیں دی۔
ہمارے ملک میں نظام تعلیم کو چار مدارج میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ نجی تعلیمی ادارے، سرکاری تعلیمی ادارے، دینی تعلیمی ادارے جن میں مدارس شامل ہیں، اس کے علاوہ کیمرج سسٹم الگ ہے۔ جہاں آکسفورڈ کی کتابیں اور انگریزی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے طلباء طبقاتی کشمکش کا شکار ہیں، جس سے تعمیر و ترقی کے بجائے نفرت و حقارت کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ تمام بچے چاہے وہ کسی بھی پس منظر سے تعلق رکھتے ہوں ،انہیں معیاری تعلیم تک رسائی ہونی چاہیے، تاکہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر خود کو اپنے پیروں پر کھڑا کر سکیں۔
وزیراعظم عمران خان نے طبقاتی تعلیمی نظام کو ختم کر کے یکساں تعلیمی نصاب و نظام رائج کرنے، مدارس کے طلبہ کو عصری تعلیم کے ذریعے اعلیٰ مناصب سمیت ترقی کے مواقع فراہم کرنے،ہر بچے کو محنت و صلاحیت کے بل پر پاکستان کی شناخت کا ذریعہ بنانے کا وژن دیا۔ ایک اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ ’’پورے ملک میں یکساں نصابِ تعلیم ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے، جس کا آغاز اپریل2021 سے ہوجائے گا جب کہ منصوبے کے مطا بق چھٹی جماعت سے آٹھویں تک یکساں تعلیم کا سلسلہ سال2020سے اور نویںسے بارہویں گریڈ تک سال2023 سے شروع کیا جانا ہے۔
’’یکساں قومی نصاب اور ہمارا نظام تعلیم‘‘ کے موضوع پر اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات اور اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے قومی کانفرنس میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ ’’ہمارے نظام تعلیم میں طبقاتی تفریق ہے، جس کے خاتمے اور قوم کو یکجا کرنے کے لئے نصاب کو یکساں کرنا لازم ہے۔
اسی تناظر میں ہم نے ایک سروے کیا جس میں چند ا ہلِ علم اور اساتذہ سے پوچھا کہ:
کیا ملک بھر میں یکساں تعلیمی نظام ممکن ہے؟ جس پر انہوں نے جو اظہارِ خیال دیا وہ نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد برفت جامشورو یونیورسٹی سندھ کےوائس چانسلر ہیں، ہمارے سوال کے جواب میں ڈاکٹر فتح محمد برفت نے کہا کہ، پاکستان ایک نظریاتی ملک ہےیہاںاب تک ایک تعلیمی نظام ہوجانا چاہیے تھا۔ ہمیں دنیا سے سیکھتے ہوئے ایک نظام تعلیم بنانا چاہیے تھا۔
قیام پاکستان کے بعد جب نئی قوم وجود میں آئی تھی تو اس وقت یہ کام بہت آسان تھا جو نہیں ہوسکا۔ قائداعظم کو بھی اتنا وقت نہیں مل سکا اور ان کے بعد کوئی ایسا رہنما نہیں آیا جس نے پاکستان کے نظریہ کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بنیادی کام کیا ہو۔ آج ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ابتداء کی تھی۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کوئی ایک تعلیمی نظام نہیں۔ 70 سے 80 فیصد بچے سرکاری اسکولوں میں جاتے ہیں ان کا ایک الگ نظام ہے۔ 20فیصد بچوںکےلئے کیمبرج اور آکسفورڈ کا نظام ہے۔ 5 سے 10فیصد کیڈٹ اسکول اور کالج ہیں۔ ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے تعلیمی نظام پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے، اگر ہم ایک قوم بننا چاہتے ہیں، مساوات چاہتے ہیں تو طبقاتی نظام کو ختم کرنا ہوگا جو ہمارے ملک کے نظریے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک، جہاں ہر رنگ، نسل، مختلف زبان بولنے والےلوگ رہتے ہیں، مگر ان کا یکساں تعلیمی نظام ایک لڑی میں پروئے ہوئےہے۔
انہوں نے مزید کہا ،کہ میرے نزدیک پاکستان کا تعلیمی نظام یقیناً یکساں ہونا چاہئے۔ معیار ایک ہو، ٹیکسٹ سسٹم، نصاب ایک ہو، اساتذہ کا انتخا ب صحیح ہو، تب ہی ایک نظام کو وجود میں لاسکیں گے۔ اگر پاکستان کو استحکام دینا اور مضبوط بنانا ہے تو سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک یکساں نظام تعلیم اور یکساں نصاب ہونا چاہئے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ طبقاتی نظام کو ختم کرے اور جب ساری قوم مل کر ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہو جائے گی تو تعلیمی نظام یکساں ہونا ناممکن نہیں۔
تحقیق کے ذریعے تعلیم کے ذریعے ہی ہم اپنے ملک کو مستحکم کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد علی جامعہ کراچی میں شعبہ سیاسیات میں پروفیسر ہیں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ،کہ یکساں نصاب تعلیم پاکستان کی تعمیر و ترقی اور وحدت کےلئے ناگزیر ہے۔ اگر آج بھی اسے مروج نہیں کیا گیا تو ہمارا ملک وہیں کھڑا رہے گا جہاں آج سے 72سال پہلے کھڑا تھا۔ کسی بھی معاشرے اور ریاستوں کی ترقی کا دار و مدار وہاں کے نصاب،تعلیمی نظام اور اس کی کامیاب ترویج پر انحصار کرتا ہے۔ یکساں نصابِ تعلیم کا نفاذ نہ ہونے کی بڑی وجوہات میں پاکستان ایک منقسم معاشرہ ہےاور سیاسی عدم استحکام کا شکار بھی ۔ اس وقت ملک کی اہم ترین ضرورت یکساں نصاب تعلیم ہے کیوں کہ اسی سے طبقاتی نظام کا خاتمہ ممکن ہے اور اسی سے ہی قومی یکجہتی کوفروغ ملے گا۔ کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا، اسے ممکن بنایا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے یکساںنصاب تعلیم مروج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا سب کو خیرمقدم کرنا چاہیے۔ اس پیش رفت کو ممکن بنانے کےلئے تمام سیاسی جماعتوں، اسٹیک ہولڈرز، اساتذہ اور ریاستی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا، تب جاکریہ نظام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر نزہت عباسی،عبداللہ کالج میں پروفیسر ہیں۔انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قوم کی ترقی میں اس کانصاب تعلیم خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انسانی اقدار کے فروغ اور فرد کو باشعور بنانے کے لئے تعلیم عام ہونا ضروری ہے۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک ماہرین تعلیم نے کئی پالیسیاں بنائیں لیکن ان پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہو سکا۔ شرح خواندگی کو بڑھانے کےلئے بھی کوششیں ہوتی رہیں۔ مختلف حکومتیں آئیں، مختلف اقدام بھی کرتی رہیں لیکن دیکھا جائے تو ان تمام ادوار میں تعلیم کی مد میں بہت کم بجٹ رکھا گیا، جبکہ تعلیم ہی وہ بنیادی عنصر ہے جس پر توجہ دینے سے ہی ہمارا ملک ترقی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔لیکن ہمارے ملک میں تعلیمی نظام امیروں کےلئے علیحدہ اور غریبوں کےلئے علیحدہ ہے، اسی وجہ سے طبقاتی تقسیم نے جنم لیا۔
یکساں نصابِ تعلیم کا مطمع نظر ،پوری قوم کو ایک ہی رنگ میں رنگنا، ملی اور قومی جذبے سے سرشار کرنا ہے، اسی سے طبقاتی تقسیم ختم ہو سکتی ہے۔ موجودہ حکومت نے نوید سنائی ہے کہ2021 میں پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کردیا جائے گا۔ اگرچہ یہ ایک مشکل امر ہے جو بڑے پرائیویٹ اسکول اور کالج ہیں، ان کا اپنا سسٹم اور نصاب ہے اور جو زیادہ فیسیں لیتے ہیں،وہ کیوں کر وہ نصاب کو یکساں کرنے پر تیار ہوں گے۔ اس سلسلے میں ماہرین تعلیم کے اجلاس ہو رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس اقدام کو مرحلہ وار ہی رائج کیا جاسکتاہے۔ یکساں زبان، یکساں نصاب اور قابل اساتذہ۔ اگر سب ایک جیسا ہو جائے تو انقلاب آ جائے۔
ڈاکٹر غلام محمد برفت جامعہ کراچی میں شعبہ کرمینالوجی کےچئیرمین ہیں۔انہوں نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا، کہ یکساں نصابِ تعلیم رائج کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کئی سال سے مروج نظام کو ایک ڈگر پر لانا ایک دم سے ممکن نہیں، اس میں وقت لگے گا۔ اس کے نفاذ کےلئے ضروری ہے کہ بجٹ اچھا رکھا جائے جس چیز پر خرچ زیادہ کرنا چاہئے اسی کا کم بجٹ ہے۔ دوسرے یہ کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر بلایا جائے ان کی رائے اور مشاورت لی جائے۔ ریاست کو پالیسیاں بھی بنانی ہوں گی، جس میں وقت لگے گا۔ یہ کام آج نہیں بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ اگر چہ اب ذہنوں کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہوگا۔لیکن ناممکن کو ممکن بنانا ریاست کے اختیار میں ہے۔ امیری، غریبی، بلندی، پستی کا چلتا ہوا طبقاتی نظام ختم ہونا چاہیے، تب ہی جاکر ہم اپنے ملک کو استحکام بخش سکتے ہیں۔
محمد اسحاق منصوری، جامعہ کراچی کے سابق صدر شعبہ عربی زبان و ادب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یکساں نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم کے لئے مساوات کا معیار مطلوب ہے اور پاکستان کا نظام تعلیم و نصاب اس منزل سے کوسوں دور ہیں۔ بہرحال صحیح منزل کی طرف ایک قدم بھی اٹھایا جائے تو اس کو خوش آمدید کہناچاہیے۔ موثر حکمت عملی ہی کامیابی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ عزم مصمم اور استقامت اس سلسلے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
الیاس بابر اعوان، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد میں لیکچرار ہیں۔انہوں نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا کہ مثالیت پسند ہونا اچھی بات ہے، تاہم زمینی حقائق سے منہ موڑ کر ایک تصوراتی دنیا کا قیدی بننا قطعی قابل ستائش نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جس طرح ہمیں ایک مقامی ثقافتی بیانیے کی ضرورت تھی بالکل ایسے ہی ہمیں ایک دیرپا یکساں تعلیمی نظام کی بھی ضرورت تھی۔ لیکن افسوس ہم دونوں محاذوں میں ناکام رہے۔ ہمارا نظام تعلیم بحران کا شکار ہے۔
ملک میں یکساں نصابِ تعلیم اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یکساں معاشی نظام رائج نہیں ہوتا۔ سرمایہ داروں کے ہاتھوں نظام تعلیم اس بری طرح سے یرغمال بن چکا ہے کہ وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ دیگر سہولیات اور ضروریات زندگی کی طرح تعلیم کو بھی عوام کا ملی استحقاق بنائے۔مابعد جدیدیت نے جہاں فکری مراکز کو توڑ دیا ہے وہیں ایک متفقہ نصاب اور نظام تعلیم خواب بن کر رہ گئے ہیں۔ نظام تعلیم کی بات تو ایک طرف نصاب میں فکری تضاد ہے۔ ریاست کے متعلقہ ادارے یہ تو کر سکتے ہیں کہ اساس پاکستان اور نظریہ سے متعلق ہی کسی نکتے پر متفق ہو جائیں اور کم از کم نصاب کو فکری سطح پر یکساں کر دیں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ یکساں نظام تعلیم کی طرف پہلا بڑا قدم ہوگا۔
ڈاکٹر شاہ انجم، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، حیدرآباد سے وابستہ ہیں۔انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ایک ہی نصاب جو نظریہ پاکستان کے تناظر میں تیار کیا گیا ہو جو آئین کی روح کے مطابق ہو، جس میں اردو ذریعہ تعلیم ہو، لاگوہونا چاہیے۔ اس کے لیےتمام ریاستی اداروں کو مل کر کاوش کرنی ہوگی۔وزیراعظم عمران خان نے یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ کا اعلان کیا جو خوش آئند ہے، جس کی بدولت ہمارے دینی مدارس کے طلباء بھی قومی دھارے میں شامل ہو کر وطن عزیز کی بھر پور خدمات سرانجام دےسکیں گے۔ فنون، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے نئے مواقع سامنے آ سکیں گے۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر صفیہ عروج، شعبہ تعلیم، جامعہ کراچی سے وابستہ ہیں۔ ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے انہوں نے کہا، کہ یکساں نصاب تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ میں اس کی بھر پور سفارش کروں گی کہ اس کے نفاذ کو ممکن بنایا جائے ،تاکہ طبقاتی نظام، سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی ابتری کا خاتمہ ہو۔ قومی اور صوبائی سطح پر تعلیمی نظام میں یکسانیت نظر آئے اور ملک ترقی کی طرف گامزن ہو سکے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں گے۔ ذاتی مفاد کو ختم کر کے ملکی مفاد کے بارے میں سوچیں گے۔ہو سکتا ہے کہ یہ نظام پرائمری سطح پر لاگو تو ہو جائے لیکن سیکنڈری، کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک لانے میں بہت محنت کرنی پڑے گی۔ ہو سکتا ہےاس میں بہت عرصہ بھی لگ جائے۔
پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال ,گورنمنٹ غزالی کالج اینڈ پوسٹ گریجویٹ سینٹر حیدرآباد میں پڑھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج تک جتنی بھی قومی تعلیمی پالیسیاں بنائی گئی ہیں، ان سب میں یکساں نظام تعلیم اور نصاب کی ضرورت پر زور دیا گیا آج کل وفاقی سطح پر’ ایک قوم ایک نصاب ‘کا سلوگن دیا گیا ہے اور صوبوں کے روابط کے ذریعے ملک میں یکساں تعلیمی نظام کی طرف قدم اٹھایا جارہا ہے،جو یقینا َاس ملک کی اہم ضرورت ہے، اسے پرائمری، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح پر رائج ہونا چاہیے۔
اس سے طبقاتی فرق ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ قومی ہم آہنگی ، یک جہتی، حب الوطنی ،مذہبی ، سماجی ، ثقافتی اقدار کو فروغ ملےگا۔دنیا میں نئی نئی ایجادات اور علوم سامنے آرہے ہیں اس لئے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے جدید علوم کو بھی نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ یکساں نظام تعلیم اور نصاب کا رائج ہونا اگر چہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہمارا ملک یکساں نظام تعلیم کے ذریعے سے ہی ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے۔
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔
ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔
اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میں آپ اپنے تلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے:
’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔