• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصل آباد لٹریری فیسٹیول، فکشن اور عالمی سینما پر گفتگو، کتاب کی رونمائی

فیصل آباد (شہباز احمد) ساتویں فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کے دوسرے روز پہلے سیشن میں مسعود اشعر، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، سعید نقوی اور ڈاکٹر نجیبہ عارف کے مابین ’فکشن کے زمانے۔ شہرزاد سے آج تک‘ کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔مسعود اشعر نے کہا کہ حقیقت سے ہی فکشن بنتا ہے اور اس کے ذریعے ایک طرح سے ہم اپنے اندر کے انسان کو ہی دریافت کررہے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر فکشن نگار اپنی زبان میں لکھتا ہے اور یہی اس کی پہچان ہوتی ہے۔فکشن وہ بھی ہے جو سامنے ہے اور فکشن وہ بھی ہے جو تخیل میں ہے۔سعید نقوی نے کہا کہ جو چیزیں ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں اسی کو خوبصورت پیرائے میں پیش کیا جائے تو یہی فکشن ہوتا ہے البتہ سائنس فکشن اس سے کچھ مختلف ہو تا ہے۔انہوں نے کہا کہ کہانی کی ابتداء ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے لیکن پھر ایک وقت آتا ہے کہ کہانی خود اپنے آپ کو لکھتی ہے۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے کہا کہ فکشن کے تین اہم حصے ہیں ’سٹوری، نیریشن، ٹیکسٹ‘۔انہوں نے کہا کہ کہانی پر اس سے بہت اثر پڑتا ہے کہ بندہ غیر متکلم ہے یا واحد غائب۔انہوں نے کہا کہ کہانی کا بہت سا حصہ غیر ارادی اور لاشعوری ہوتاہے۔ڈاکٹر ناصر کے مطابق قصص، حکایات اور افسانوں کی صورت میں فکشن ہمیشہ موجود رہا ہے اور ’الف لیلی‘ دنیا کا عظیم ترین فکشن ہے۔ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کہا کہ عام طور پر افسانے اور حقیقت کو ایک دوسرے کی ضدسمجھا جاتا ہے۔یہ خیال گمراہ کن ہے کہ اردو میں فکشن مغرب سے آیا ہے۔ دوسرے سیشن میں غازی صلاح الدین، ڈاکٹر اصغر ندیم سید اور ڈاکٹر شیبا عالم ’عالمی سینما اور سوسائٹی‘ کے موضوع پرشریک گفتگو ہوئے۔ غازی صلاح الدین نے کہا کہ پاکستانی سینما ایک بند گلی میں کھو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ’زندگی تماشہ‘ فلم کو آسکر کے لئے نامزد کیا گیا لیکن اسے پاکستان میں نمائش کی اجازت نہیں دی گئی۔

تازہ ترین