• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیشن اور ادب دوستی کے نام پر کچھ افسر کچھ شعر بھی یاد کر لیتے ہیں اور موقع یا بے موقع پڑھتے بھی رہتے ہیں۔ ہمارے نالائق بیٹے کو وزیر بننے کے بعد غالب کا مصرعہ، اپنےباپ سے جوڑتے ہوئے کبھی ندامت نہیں ہوئی مگر شبرحسین صاحب کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے فیض صاحب کا مصرعہ برمحل یاد آیا۔ کہنے لگے ’’ویسے تو میں لیفٹ کا آدمی نہیں ہوں مگر مجھے ان کی بنیادی باتوں پہ بہت اعتبار ہے جنہیں ہمارے سسٹم والے قبول نہیں کرتے بلکہ درخور اعتناہی نہیں سمجھتے‘‘۔ لوگوں نے پوچھا ’’وضاحت کیجیے‘‘ فرمایا ’’بھئی صرف لیفٹ نہیں سارے ترقی یافتہ ملکوں میں چار بنیادی اصلاحات کی جاتی ہیں جو صنعتی شعبے پر نہیں چھوڑی جا سکتی ہیں۔ اول تو بنیادی صحت، مکمل طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے جس کیلئے ہمارے بجٹ میں کم سے کم اضافہ ہوتا ہے۔ دوسرا بنیادی لازمی تعلیم، ہمارے ملک میں بھی ڈھائی کروڑ بچے سرے سےاسکول ہی نہیں جاتے۔ تیسری بات یہ ہے کہ چاہے لندن دیکھیں یا ناروے، پبلک ٹرانسپورٹ ملک کےہر حصے میں ضروری ہے اور چوتھا اختیارات و انتظامات کو نچلی سطح سے شروع کر کے صوبوں کاحصہ اٹھارہویں شق کے تحت باقاعدگی سے دیا جائے‘‘۔

آخر میںاُنہوں نے فیض صاحب کا مصرعہ پڑھا، میںیہ سب سن کر واپس قلم لے کر رجوع ہوئی۔ یہ موجودہ وزیر اعظم بار بار انڈسٹری کو بڑھانے، سیمنٹ کی قیمتوں کو چھوڑ کر کھپت کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔ تعلیم کے شعبے کا ستیاناس پہلے تو اس سال کورونا نے کر دیا ہے۔ دوسری طرف ہمارےپرانے دوست شفقت نے عجب کھچڑی پکا کر نیا نصاب، اگلے سال سے شروع کرنے کا ڈھنڈورا پیٹا ہوا ہے۔ ادھرساتھ ہی جب چاہیں مذہب کے اجارہ داروں کو اجازت ہے کہ وہ کوئی بھی تنازعہ کھڑا کر کے، دھرنا دیدیں اور حکومت کیا، دونوں شہروں میں ٹرانسپورٹ سے لےکر موبائل تک جام کر دیے جائیں۔ کمال یہ ہے کہ ان کی ہر بات سرکاری کارندے مان کر ان کی شرائط بسرو چشم قبول کر کے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے، بین الاقوامی قوانین اور بین المملکتی معاہدوں کو فراموش کرتے ہوئے ان کے ساتھ معاہدہ کر لیتے ہیں۔ رہا صحت کا معاملہ، اس کا تو ہر پردہ ہر شہر محلے میں کورونا نے ہی چاک کر دیا ہے۔ بجٹ میں بھی اضافہ نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں جو فنڈنگ ایجنسیاں ہیں، وہ جو خیرات دے دیں تو اس میں بھی بندر بانٹ ہوتی ہے۔ کچھ سرکار اور کچھ این جی اوز کو دیکر پھر وہ لوگ (غیر ملکی) بڑی بڑی گاڑیوں میں غیر ممالک سے آکر کیا دیکھتے ہیں؟ کہاں ٹھہرتے اور کیا کرتےہیں؟ یہ الگ داستان ہے۔ وہ پانچ ستارہ ہوٹلوں میں ٹھہرتے، بزنس کلاس میں سفر کرتے، مہنگی گاڑیوں کے ذریعہ گائوں گائوں جا کر دیکھتے ہیں کہ ایک نلکا، ٹیوب ویل یا زچہ بچہ مرکز یا ہینڈ پمپ لگا ہے یا نہیں۔ ایک لفظ ’’سول سوسائٹی‘‘ گزشتہ چند سالوں سے ایجاد ہوا ہے۔ کئی لوگ اس کے کرتا دھرتا بن جاتے ہیں۔ موٹی موٹی رپورٹیں بنائی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کا ادارہ اگر ان اعداد و شمارکی نفی میں اصلیت ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو ان کو ایجنٹ کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔

رہا تیسرا موضوع، پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ، اب بھی لاڑکانہ میں بیل گاڑی چلتی دیکھ کر آئی ہوں۔ وہ توخدا بھلا کرے کہ نجی سوزوکی ڈبے اور ڈرائیور دیہات تک چالیس برس سے پہنچے ہوئے ہیں۔ جہاں تک سڑکوں کا تعلق ہے وہ تو ان سیاحتی علاقوں میں بھی نہیں کہ جہاں جانے کیلئے اور زرمبادلہ کمانے کیلئے کئے جانے والے دعوے، دھرے کے دھرے رہ جاتےہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم، جمائمہ کے ساتھ شادی کے بعد اگی کے پہاڑی مقام پر گئے تھے۔ کچھ عرصے بعد میں نےاپنی بہنوں کو لےکر وہاں جانے کا پروگرام بنایا۔ ضلعی افسران پہلے اس خیال پہ ہنسے اور کہا آپ کی گاڑی وہاں نہیں پہنچ سکتی ۔ آپ کو کرائے پر جیپ مل جائیگی۔ وہ لے کر چلی جائیں۔ خیر جیپ میں بیٹھ کر، لگتا تھا ہم لوگ جامنوں کی طرح اچھل رہے ہیں۔ کبھی سیٹ پر کبھی نیچے کہ سڑک نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اوپر پہنچ کر پتہ چلا کہ یہاں نہ بجلی ہے، نہ پانی اور نہ پکانےکے لئے گیس ہے نہ سلنڈر۔ نہ چوکیدار ہے نہ خانساماں۔ پوچھا ’’آخر عمران خان جمائمہ کے ساتھ کیسےرہتے تھے‘‘۔ لوگوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ ایک گاڑی میں اشیائے خورو نوش، بکرے، دوسری جیپ میں پانی، فریج اور دیگر لوازمات اور تیسری جیپ میں ملازمین تھے۔‘‘ عقل نےکہا ’’تم کس کی نقل میں صرف اشیائے خورووش لے کر آگئی ہو؟ بہر حال سارا سامان لانے کے لئے بار بار جیپ کرائے پر لی گئی تو یوں دو دن ہم نے ’’اگی‘‘ میں گزارے۔ مدینے کی ریاست کا علم تو انہیں بشریٰ بی بی نے سکھایا ہے۔ خیرچوتھی بات صوبوں کے درمیان فنڈز کی آئین کے مطابق فراہمی۔ یہ کبھی بھی نہیں ہوا۔ اگر ہوتا توبلوچستان اور تھرکا یہ حال نہ ہوتا۔

تازہ ترین