• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگریز کمشنر پولیس نے حُکم جاری کیا کہ ہال زبردستی خالی کروایا جائے۔ پولیس کا دستہ جو رات ہی سے وہاں موجود تھا، اندر جناح کے حامیوں پر ٹوٹ پڑا۔ جب حامیوں نے ہال سےنکلنے سےانکارکیاتوپولیس گردی شروع ہوگئی۔ حامیوں کو جو مار پڑی تو جناح بھی محفوظ نہ رہے۔ دو ایک ڈنڈے اُنھیں بھی لگے۔ جناح اور اُن کےحامی باہر نکلےتوباہربھی ایک غُل پڑا تھا۔ اتنے مَردوں میں رتی واحد خاتون تھیں، جو انگریز راج کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے وہاں موجود تھیں۔ 

جناح کو غُصّہ تھا، بہت زیادہ غُصّہ۔ وہاں جمع ہونے والے لوگوں میں بھی اشتعال تھا، وہ جناح کو لے کر نعرے لگاتے ہوئے اپولو اسٹریٹ پہنچے اور بقول ہیکٹر بولیتھو، محمّد علی جناح نے زندگی میں پہلی اور آخری بار ایک جذباتی تقریر کی، جس میں انھوں نے کہا کہ ’’دوستو! بمبئی کے شہری تم ہو اور آج تمھاری کوشش سے جمہوریت نے ایک بہت بڑی فتح حاصل کی ہے۔ تمھاری اس کام یابی نے ثابت کر دیا ہے کہ ایک آمر حُکمران اور اس کے کارندے سب مل کر بھی تمھیں نہیں ڈرا سکے۔ دوستو! جائو اور جمہوریت کی اس کام یابی پر خوشیاں منائو۔‘‘

اُسی رات جناح کی اس عظیم کام یابی کے اعزاز میں پہلے مظاہرہ اور پھر جلسہ ہوا، جس میں اُن کے نام پر ایک ہال تعمیر کرنے کے لیے چندہ جمع ہوا، اوردیکھتے ہی دیکھتے پینسٹھ ہزار روپے جمع ہوگئے۔ بعد میں ہال تعمیر بھی ہوگیا، لیکن اُس کے افتتاح کے موقعے پر جناح لندن میں تھے۔ سروجنی نائیڈو نے، جنھوں نےجناح پر کتاب مُرتّب کی (اور کہتے ہیں کہ وہ بھی اُن خواتین میں سے تھیں، جناح جن کےخوابوں کے شہزادے تھے) لکھا کہ ’’جمہوریت کے پیغمبر کے نام پہ شہریوں نے اپنے ہی چندے سے ہال تعمیر کر دیا‘‘۔ مگر…جناح کو اس طرح کی شہرت اور عزّت افزائی سے قطعاً کوئی دل چسپی نہ تھی۔ 

وہ چاہتے تو جو حکومت گاندھی جی کو آگے چل کر پہلی جنگِ عظیم میں تعاون کرنے پرقیصرۂ ہند کا تمغہ پہنا چُکی تھی، جناح کو بھی ’’سر‘‘ کا خطاب دے سکتی تھی، بلکہ دینا بھی چاہتی تھی، لیکن جناح نے مختلف مواقع پر جس طرح انگریزحکومت کو زِچ کیا، اُس کے بعد حکومت کو اندازہ ہوگیاتھا کہ ایسی کسی پیش کش کا اُن کی طرف سے کیا جواب آئے گا۔ شاید یہی کہ ’’میرا سب سے بڑا اعزاز یہ ہوگا کہ آپ انگریز اپنی حُکم رانی سمیٹ کر ہندوستان چھوڑ دیں‘‘۔

تنہائی…اور، عُمر بھر کی جدائی

محمّد علی جناح کی مشکل یہ تھی کہ اُنھوں نے رتی سے جدائی کا فیصلہ تو کرلیا تھا، لیکن وہ تنہائی جو اُن کا مقدّر بنی ہوئی تھی، اُس سےنباہ مشکل تھا۔ اُس تنہائی سے، جو جانکاہ تھی، اُن کاسابقہ تو بہت پہلےسے پڑچُکا تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد، جب وہ خود کو دوسرے لڑکوں سے مختلف پاتے تھے۔ گولیاں، گلی ڈنڈا اور کرکٹ جیسے کھیل کھیلتے ہوئے، یا گُھڑ سواری کرتے ہوئےبھی اکیلے پن کا ایک احساس اُن کے جسم و جاں سے چمٹا رہتا تھا۔ اُن کی زندگی میں واحد ہستی ماں تھیں،  جن سے اُنھیں بے پناہ لگائو اور پیار تھا۔ یہی حال ماں کا تھا، جو اپنے اِس پہلوٹھی کے بیٹے پر جان چِھڑکتی تھیں۔ وہ جب لندن کے لیے رخت سفر باندھ رہے تھے تو ماں کی حالت دیکھنے والی تھی، بولائی، بوکھلائی پِھرتی تھیں۔ 

آخر اُن سے رہا نہ گیا۔ بیٹے کو پاس بٹھایا اور کہا ’’تیرے جانے کے خیال سے میرا دل ڈوبا جاتا ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ تُو ایک دن ضرور بڑا آدمی بن کر لوٹے گا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ تب تیرا مُنہ چومنے اور تجھے سینے سے لگانے کے لیے مَیں اِس دنیا میں نہیں ہوں گی۔‘‘ جناح کو یہ سُن کے سخت صدمہ پہنچنا چاہیے تھا، اور پہنچا بھی ہوگا، لیکن وہ کچھ نہیں بولے۔ وہ اظہار کے عادی نہیں تھے، لیکن جذبات سے عاری بھی نہیں تھے، مگر اُنھیں یقین سا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اُن کی ماں زندہ رہیں گی اور اُس وقت تک دنیا میں رہیں گی، جب تک اپنے خواب کو حقیقت بنتا نہ دیکھ لیں ۔ لیکن ماں کا اندیشہ سچ ثابت ہوا۔ 

جناح کو لندن میں، جب کہ وہ ماں کے خوابوں کی تعبیرکی تلاش میں حالات سے لڑ رہے تھے، بادشاہوں، حُکمرانوں کی سوانح عُمریاں پڑھتے تھے اور خود کو اُن کی جگہ پہ رکھ کے دیکھتے تھے، یہ دل خراش اطلاع ملی کہ اُن سے اس بَھری دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرنے والی اُن کی ماں اُنھیں دنیا میں یکا و تنہا چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔ وہاں، جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا، بس اپنے پیچھے یادوں کا ایک ذخیرہ چھوڑ جاتا ہے۔ جانے والے کی یاد میں لاکھ آنسو بہائےجائیں، دن رات تڑپ تڑپ جیا، مرا جائے، پروردگار بس اتنی آسانی اور سہولت دیتا ہے کہ اُن بچھڑنے والوں سے خوابوں میں مل لیا جائے۔ اور جب آنکھ کھُلےتو اپناچہرہ، آنکھیں آنسوئوں سےتر ہوں۔ دل کا بوجھ آنسوئوں سے ہلکا ضرور ہو جاتا ہے، لیکن یہ آنسو کسی گہرے گھائو کو مندمل تو نہیں کر پاتے۔ محمّد علی جناح نے پھر کبھی ماں کو خواب میں دیکھا یا نہیں، اس کا تذکرہ کہیں نہیں ملتا۔ ہاں یہ ضرور لکھا ملتا ہے کہ وہ ماں کی جدائی کے غم میں پُھوٹ پُھوٹ کر رو پڑے۔ 

اتنا روئے، اتناروئےکہ اُن پہ غشی طاری ہوگئی، وہ بےہوش ہوگئے۔ لیکن بعد میں جناح نے جس طرح خود کو سنبھالا، اُس سے گمان ہوتا ہے کہ اُنھوں نے بس اپنی ماں کی ایک بات گرہ سے باندھ لی تھی کہ اُنھیں اپنی ماں کے سامنےایک نہ ایک روزسُرخ رُو ہونا تھا۔ اور اب یہی اُن کا مقصدِ حیات تھا۔ اس گمان کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ پھر اُن کی زبان پہ ماں کا ذکر آیا ہی نہیں۔ ہاں البتہ وہ لندن سے لوٹ کر کراچی گئے تو اُس مکان میں ضرور گئے، جہاں وہ پیدا ہوئے تھے، لیکن ماں کی قبر پرحاضری نہیں دی۔ شاید وہ دے ہی نہ پائے ہوں کہ جب وہ ماں کی جدائی کا سُن کر روتے روتے بےہوش ہوگئے تھے تو شاید ماں تصوّر میں آئی ہوں، اُن کا سرسہلایا ہو اور کہا ہو کہ ’’نہ رو میرے لال! ایک نہ ایک دن تُو ضرور مجھ سے آملے گا۔ مَیں تیرا رستہ دیکھ رہی ہوں۔ مگراللہ تجھ سے ایک ایسا کام لے گا کہ رہتی دنیا تک تیرا نام زندہ رہے گا۔ 

اُس وقت تک کے لیےتُو مجھے بھول جا اور خود کو اللہ کےحوالے کر دے۔ اِسی طرح تیرا رب تجھ سے اور مجھ سے راضی رہ سکتا ہے۔‘‘ جناح کی آنکھ کُھلی ہوگی تو پلکوں سے پھر آنسو کا کوئی قطرہ نہیں ٹپکا ہوگا۔ اُن کے دل کو تسلّی ہوگئی ہوگی۔ اورپھر… انھوں نے بُھلانے کو اپنی ماں کو بُھلا تو دیا کہ اگر نہ بُھلاتے تو لنکنز ان کا امتحان کیسے پاس کرتے، بیرسٹر کیسےبن پاتے۔ لندن کےدارالعوام کی گیلری میں بیٹھ کر وہ تقریریں کیسے سُنتے،جن سے اُن کے اندر کے مقرّر کی ایسی اچھی تربیت ہوتی کہ سیاسی بحثیں کیسے کی جاتی ہیں۔ دادا بھائی نوروجی کی صحبتوں میں کیسے اُٹھتے بیٹھتےکہ ان ہی صحبتوں کے سبب تو وہ ایک طاقت ور سیاسی شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنےآئے۔

بَھرا پُرا گھر نہیں، ایک پُرآسائش مکان

ہاں، یہ سبھی کچھ ٹھیک ہے، لیکن محمّد علی جناح ایک انسان بھی تھے۔ انسان… جس کے پاس ایک جیتاجاگتا دل، ایک زندہ روح ہوتی ہے، جو عقل و شعور رکھتا ہے۔ جس کے پاس سوچنے سمجھنے والا ذہن ہوتا ہے، تو ذہنی تنہائی بھی۔ اُسے دل کی ویرانی، بیابانی کا بھی سامنا کرناپڑتا ہے۔ انسان دنیا میں اکیلے زندگی گزارنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، اُسے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ سب کے ساتھ مل جل کر رہے۔ اُس کا ایک گھر ہو، جہاں سے اُسے سُکون کی دولت ملے، جہاں قہقہے گونجیں، ہنگامے ہوں، بحث مباحثہ ہو، تو ذرا سی چیخ و پکار بھی، ہاں، ان ہی باتوں، رنگارنگیوں سےدنیا میں آدمی کا دل بہلا رہتا ہے۔ تو کیا ایسا کوئی گھر محمّد علی جناح کوکبھی ملا؟گھر بنتاہےماں باپ، بہن بھائیوں اور بیوی، بچّوں سے۔ 

مگر ذرا جناح کی زندگی میں جھانک کر تو دیکھیے۔ وہاں ہجوم ملے گا، جلسے جلوس ملیں گے، نعرے بازی ہوگی، کانفرنسیں، مذاکرات ہوں گے۔ ستائش،تعریف و تحسین ملے گی لیکن نہیں ملے گا تو ایک ’’گھر‘‘ نہیں ملے گا۔ محمّد علی جناح ایک مکان میں رہتے تھے، ایک پُر آسائش اور سہولتوں سے آراستہ مکان میں۔ لیکن وہ مکان گھر نہیں تھا۔ گھر بنتا ہے گھرانے سے۔ گھرانا نہ ہو تو گھر، مکان ہی رہتا ہے۔ چُونے گارے، اینٹوں سے بنا ہوا مکان۔ اس میں محبت کی حرارت نہیں ہوتی۔ قہقہے چہچہے نہیں ہوتے۔ ہاں، اس کا ایک امکان ضرور پیدا ہوا تھا کہ جب جناح نےایک عرصے تک ہوٹل میں رہنے کے بعد اپنا ذاتی مکان خریدا۔ بمبئی کے مائونٹ پلیزنٹ روڈ پہ خریدا گیا وہ مکان بہت خُوب صورت تھا، بمبئی کی نواحی بلندیوں پہ واقع، جہاں سے سمندر صاف دکھائی دیتا تھا۔ 

وہ اونچے اونچے درختوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ تب جناح وکیل کی حیثیت سے وکلا کی صفِ اوّل میں جگہ بنا چُکے تھے۔ انھوں نے ابتدائی دنوں میں جن لوگوں کے مقدمےلڑے، اُن میں سر ڈنشا پٹیٹ بھی شامل تھے، جو مقدّمے بازیوں کے خاصے شوقین تھے۔ اپنا کوئی چھوٹا اور معمولی سامسئلہ بھی عدالتوں ہی سےطے کروانے کے عادی تھے۔ رتی اورجناح کے عشق و محبّت اور شادی پر نہایت عُمدہ تحقیق کرنے والی شیلا ریڈی نے لکھا ہے کہ ’’سرڈنشا ہی نے سب سے پہلے جناح کو اپنا مقدمہ دیا۔ اس مقدمے میں سرڈنشا نے بہت سی اہم شخصیات پر بلیک میلنگ کا الزام لگایا تھا اور جناح اُن وکلا میں سے ایک تھے، جو اس مقدمے کی پیروی کر رہے تھے۔ 

اِسی کیس نے جناح کو بطور وکیل اُبھرنے کا موقع فراہم کیا۔ اور یہی کیس جیتنے کے بعد پھر جناح کو کبھی مؤکلوں کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت پیش نہیں آئی بلکہ مؤکل ہی ان کی تلاش میں پھرتے نظر آئے۔‘‘ ویسےشیلا ریڈی کا یہ جملہ کسی حد تک معترضہ ہے کہ ’’مؤکلوں کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت پیش نہیں آئی‘‘ سچ تو یہ کہ وہ کبھی بھی مؤکلوں کے پیچھے نہیں بھاگے تھے۔ اُنھیں مقدمہ نہیں ملتا تھا تو وہ اپنا وقت مطالعے میں گزارتے تھےکہ مطالعے کا شوق بلکہ جنون اُنھیں لندن ہی میں ہوگیا تھا اور جب وہ بمبئی پہنچےتھےتو اُن کے سامان میں کپڑوں کے علاوہ کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ بمبئی پہنچ کر انھوں نے ریلوے کالونی کے قریب ایک پارسی ہوٹل ’’فٹز جیرالڈ ہوٹل‘‘ کے ایک کمرے میں قیام کیا۔ ہوٹل کا مالک اُن کے چچا کا دوست تھا اور چچاہی نے اُن کے اس ہوٹل میں قیام کا بندوبست کروایا تھا۔ 

انھوں نے ریلوے میں ملازم اپنے ایک افسر دوست سے جناح کے کھانے پینے کا بندوبست کرنے کی بھی استدعا کی تھی۔ اس ضمن میں قائد کے سوانح نگار، خواجہ رضی حیدر لکھتے ہیں کہ ’’کھانا پہنچانے والا شخص جہانگیر کمباٹا جب بھی کھانا لے کر ہوٹل گیا، اُس نے جناح کو کسی کتاب ہی پر جُھکا ہوا پایا‘‘ اور پھر جب جناح کی ملاقات قائم قام ایڈووکیٹ جنرل، میکفرسن سے ہوئی تو اُس نے اُن کا شوقِ مطالعہ کو دیکھ کر اُنھیں اپنے چیمبر کی لائبریری میں مطالعےکی اجازت دے دی۔ 

ویسے ایسا ہوتا نہیں تھا کہ کوئی انگریز بیرسٹر کسی ہندوستانی کو ایسی عزت دے۔اسی لیےہر طرف چہ مگوئیاں ہونے لگیں،مگرمیکفرسن نےکچھ خاص پروا نہیں کی۔ اُس کی لائبریری میں  قانون اور حالات حاضرہ پر کتابوں کا ایک نہایت قیمتی خزانہ موجود تھا۔ جناح صبح لائبریری جاکر جیسےکتابوں میں خود کو غرق کر دیتے۔اور واپسی کا خیال تب ہی آتا، جب شام کے سائے پھیلنے لگتے۔

قابل ترین وکیل کا اپنا مقدمہ

اوّل اوّل رتیّ اورجناح کی دوستی میں بھی کتابیں ہی ایک قدرِ مشترک تھیں۔ رتیّ بھی جناح کی طرح کتابوں کی شوقین تھیں۔ سرڈنشا اپنی اکلوتی چہیتی بیٹی کے اس شوق سے بخوبی واقف تھے، تو جب بھی رتی کی سال گرہ آتی، تو وہ ہمیشہ ایک شفقت آمیز فقرہ لکھ کر، اپنے دستخط کے ساتھ اُنھیں کوئی کتاب ہی تحفے میں دیتے اوررتی بہت خوش ہوجاتیں۔ دولت مند باپ کی بیٹی تھیں۔ 

زندگی میں آسائشوں کی کمی نہ تھی۔ گھر کیاتھا، بادشاہوں جیسا محل تھا، نوادرات سے بھرا، سجاسجایا، جس میں ایک شان دار مہمان خانہ بھی تھا۔ سرڈنشا عام پارسیوں کی طرح روایت پرست نہ تھے۔ وہ اکثر رسوم و رواج کے خلاف بھی چلے جاتے تھے اور ان پارسیوں کا ساتھ دینے میں کوئی تکلّف محسوس نہ کرتے تھے، جو اپنے مخصوص عقائد کے خلاف جانے کی کوشش کرتے تھے، جیسا کہ انھوں نے رتن ڈی ٹاٹا کے معاملے میں کیا۔ دراصل بمبئی کے ایک دولت مند پارسی، رتن ڈی ٹاٹا نے ایک فرانسیسی عورت سے شادی کر کے غالباً اپنے ہم مذہبوں سے پہلی بغاوت کی تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ پہلے پارسی تھے، جنھوں نےکسی غیر پارسی عورت سے شادی کی تھی اوریہ شادی پیرس میں ہوئی تھی، جس میں رتن ڈی ٹاٹا کے چچا جمشید جی ٹاٹا نے بھی شرکت تھی۔ 

وہاں تو اس شادی پر کوئی شور شرابا نہیں ہوا، لیکن جب رتن اپنی بیوی کو پارسی مذہب میں داخل کرکے بمبئی لائے تو یہاں ایک کہرام مچ گیا۔ ایسے میں سرڈنشا، رتن ڈی ٹاٹاکی حمایت میں یہ مقدمہ عدالت لے گئے،جس نے پارسی پنچایت کے اس اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ کوئی پارسی کسی غیر پارسی سے شادی نہیں کر سکتا۔ 

ظاہر ہے انسان کے بنیادی حق میں یہ حق بھی شامل ہے کہ وہ جہاں چاہے نکاح کرے۔ تو معروف معنوں میں اس معاملے میں بھی سر ڈنشا ’’ترقی پسند‘‘ ہی تھے، مگر… باغی پارسی رتن ڈی ٹاٹا کا مقدمہ لڑکر اُن کا بنیادی حق دلوانے والےجناح جب سرڈنشا کے سامنے اُن کی اپنی بیٹی کا معاملہ لے کر گئے تو وہی ڈنشا، بیٹی کو اُس کے حق سے محروم کرنے کے لیے ایک بار پھر عدالت جا پہنچے اور وہاں سے یہ حُکمِ امتناعی لے کر آئے کہ ’’بیٹی اپنی پسند کی شادی کسی غیر پارسی سے اِس لیے نہیں کر سکتی کہ ابھی اُس کی عُمر اتنی نہیں ہوئی کہ اپنے بُرے بھلے کا فیصلہ کر سکے‘‘۔ (جاری ہے)

تازہ ترین