• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوروناوائرس ایک بار پوری دُنیا میں تباہی مچانے کے بعد پھر سَر اُٹھا رہا ہے اوراس دوسری لہر میں پہلے کی نسبت زیادہ شدّت محسوس کی جا رہی ہے۔ گرچہ پہلی لہر میں پاکستان کی نسبت یورپ، امریکا اور بھارت میں جانی و مالی نقصانات کی شرح بُلند رہی، مگر افسوس کہ دوسری لہر میں بہت تیزی کے باوجود عوام کا رویّہ خاصا غیرسنجیدہ ہے،حالاں کہ عالمی ادارۂ صحت نے اس دوسری لہر کو زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔

یہ تو اب تقریباً سب ہی لوگ جانتے ہیں کہ کورونا وائرس کی علامات میں سَر درد، بخار، نزلہ زکام، تھکاوٹ، شدید کھانسی، گلے میں درد، سانس پُھولنے اور سانس لینے میں دشواری وغیرہ شامل ہیں۔ بعض کیسز میں سانس لینے کی دشواری پھیپھڑوں کو ناکارہ کرکے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے، جب کہ اس وائرس کے اثرات بیماری کے دوران اور بحالی کے بعد پھیپھڑوں پر مختلف انداز سے مرتّب ہوتے ہیں۔

مثلاً انفیکشن کی وجہ سے مریض نمونیا میں مبتلا ہوجاتا ہے، جس میں پھیپھڑوں میں سیال مادّہ بَھرجانے کے ساتھ سوزش واقع ہوتی ہے، جو سانس لینے میں دشواری کا باعث بنتی ہے۔ پھیپھڑوں میں "Air Sacs" یعنی ہوا کی تھیلیوں میں لیکوئیڈ جمع ہوجانے کے باعث آکسیجن لینے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے، نتیجتاً کھانسی، سانس کی رفتار بڑھنے کے ساتھ دیگر علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ بعض مریضوں میں مرض کی شدّت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وینٹی لیٹر ناگزیر ہوجاتا ہے۔

نمونیا جوں جوں شدّت اختیار کرتا ہے، پھیپھڑوں میں موجود خون کی باریک رگوں سے نکلنے والا لیکوئیڈ ہوا کی تھیلیوں میں بَھرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ پھیپھڑے ناکارہ ہوجاتے ہیں۔اسے طبّی اصطلاح میں "Acute Respiratory Distress Syndrome" کہا جاتا ہے۔ اے آر ڈی ایس کے مریض عام طور پر اَز خود سانس لینے کے قابل نہیں رہتے اور اُن کے جسم کو آکسیجن فراہم کرنے کے لیے وینٹی لیٹر کی مدد لینی پڑتی ہے۔

ہمارے یہاں عام طور پر فزیو تھراپی کو پٹّھوں، ہڈیوں اور جوڑوں کے امراض میں مفید علاج تصوّر کیا جاتا ہے، لیکن یہ تھراپی دِل اور پھیپھڑوں کے عوارض میں بھی بے حد مؤثر ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوچُکا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی بحالیٔ صحت میں فزیو تھراپی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی مختلف تیکنیکس مثلاً Manual Percussion, Postural Drainage اورسانس کی مشقیں وغیرہ پھیپھڑوں کی صحت بحال رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔اصل میں جب پھیپھڑوں میں فلیوڈ جمع ہوجاتا ہے، تو اسے خارج کرنے کے لیے فزیو تھراپی کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ 

فزیوتھراپسٹ ان رطوبتوں کو سکشننگ(کھینچنے، خارج کروانے کا عمل)کے ذریعے خارج کرواتے ہیں۔ علاوہ ازیں،کورونا وائرس کے وہ مریض، جو پہلے ہی پھیپھڑوں کے کسی مرض کا شکار ہوں اور انھیں سکشننگ کی ضرورت ہو تو Manual Percussion یا پھر Thoracic Compressionsکی مدد سے اُن کے پھیپھڑے صاف کیے جاتے ہیں۔ اِسی طرح ان مریضوں کی"Passive Mobilization"بھی ضروری ہے، تاکہ اُنہیں پٹّھوں کی کم زوری، جوڑوں کی سختی اور بستر پر لیٹے رہنے سے ہونے والے زخموں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ علاوہ ازیں، کورونا وائرس کی کم شدّت والے مریضوں کے لیے علاج کے ضمن میں لیٹنے،بیٹھنے کے طریقے بھی بہت اہم گردانے جاتے ہیں۔ 

ان مریضوں کے لیے اُلٹا یعنی پیٹ کے بل لیٹنا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ ہمارے پھیپھڑوں کا اہم حصّہ پیچھے کی جانب واقع ہے، جو سیدھا لیٹنے سے دَب جاتا ہے،نتیجتاً پھیپھڑوں کے ناکارہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ نیز، اُلٹا لیٹنے سے آکسیجن زیادہ اور آسانی سے فراہم ہوتی ہے،لہٰذا پھیپھڑے ناکارہ ہونے کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔اس کے علاوہ "Active Mobilization" جیسے لیٹے ہوئے بیٹھنا، بیٹھے ہوئے کھڑے ہونا اور اُٹھنا ،بیٹھنا ایسی ورزشیں ہیں، جو مریضوں کی صحت بہتر کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کو قوّتِ مدافعت میں کمی کے نتیجے میں خاصی کم زوری محسوس ہوتی ہے۔ 

ایک محتاط اندازے کے مطابق ان مریضوں کے ایک ہفتے کےدوران بیس فی صد پٹّھے کم زور ہوجاتے ہیں، تو ایسی صُورت میں فزیوتھراپی بے حد مفید ہے۔ اِس طرح کم شدّت والے مریضوں کو مختلف طریقوں سے سانس لینا سکھایا جاتا ہے، جن کی مدد سے پھیپھڑوں میں آکسیجن کی فراہمی بہتر ہوتی ہے اور آسانی سے خارج ہونی والی رطوبت بھی خارج ہوجاتی ہے۔اس کے علاوہ فزیوتھراپسٹ ان مریضوں کوسانس لینے کی صلاحیت بڑھانے اور بہتر رکھنے کے لیے سانس لینے کے مختلف مشقیں بھی کرواتے ہیں۔ یاد رہے، پوری دُنیا میں کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے ڈاکٹرز، نرسز کے ساتھ فزیو تھراپسٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے اور عالمی ادارۂ صحت بھی ان کی خدمات کا معترف ہے۔ (مضمون نگار،فزیوتھراپسٹ ہیں اور سندھ گورنمنٹ اسپتال، لیاقت آباد، کراچی سے وابستہ ہیں)

تازہ ترین