• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معذور اشخاص کو ’خصوصی افراد‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ہر سال پاکستان سمیت دنیا بھر میں3دسمبر کو معذور افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا اعلان 1992ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے ذریعے کیا گیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے کے تمام شعبوں میں معذور افراد سے اظہار یکجہتی کرنا، ان کے حقوق اور فلاح و بہبود کو فروغ دینا، دنیا بھر میں انھیں درپیش مسائل اُجاگر کرنا، ان کی افادیت پر زور ڈالنا اور انھیں کسی بھی طرح کے احساسِ کمتری کا شکار ہونے سے بچاکر عام افرادکی طرح زندگی گزارنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

انسانی جسم میں کسی بھی عضو یا جسمانی صحت کے بنیادی اصول سے محرومی معذوری کہلاتی ہے۔ معذوری تین قسم (ذہنی، ابلاغی اور جسمانی) کی ہوتی ہے جو پیدائشی اور حادثاتی ہوسکتی ہے۔ معذوری میں مبتلا افراد کی معمولاتِ زندگی سرانجام دینے کی اہلیت و صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ پیدائشی یا حادثاتی طور پر ہونے والی جسمانی معذوری میں جسم میں نقص، زخم یا عیب پیدا ہوجاتا ہے۔ 

دماغی معذوری اکثر اوقات بچپن سے لاحق ہو جاتی ہے جبکہ بعض دفعہ زندگی میں پیش آنے والے تلخ حادثات اور واقعات بھی اس کا سبب بن جاتے ہیں۔ قوتِ گویا ئی یا سماعت میں کمی یا پھر مکمل طور پر اس صلاحیت کا نہ ہونا ابلا غی معذوری کہلا تاہے۔ منشیات کا کثرت سے استعمال، قدرتی آفات، ٹریفک حادثات، صنعتی حادثات، جنگیں، تشدد، دہشت گردی اور خودکش دھماکے حادثاتی معذوری کا باعث بنتے ہیں۔ بعض اوقات معمولی بیماری بھی مناسب اور بروقت علاج کی سہولتیں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے زندگی بھر کا روگ بن جاتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کے ایک ارب سے زائد افراد (آبادی کا 15فیصد) معذوری کی کسی نہ کسی شکل کا سامنا کرتے ہیں۔ 80فیصد معذور افراد کا تعلق ترقی پزیر ممالک سے ہے۔ ان ممالک میں معذور افراد کوزندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع میسر نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 60سال یا اس سے زائد عمر کے 46فیصد افراد معذوری کا شکار ہیں۔ پانچ میں سے ایک خاتون کا زندگی کے کسی بھی حصے میں معذور ہونے کا امکان ہوتا ہے جبکہ دس میں سے ایک بچہ معذور ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس نے معذور افراد کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا ہے۔

معذور افراد عدم توجہ، عدم تعاون اور سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے بوجھ بن جاتے ہیں۔ انھیں کارآمد شہری بنانے، معاشرے میں صحیح مقام دلانے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے ہر روز، ہر موقع، ہر پلیٹ فارم پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو درپیش مسائل کا ازالہ کیا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں معذور افراد کو سماجی ، معاشی اور حکومتی تعاون حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی کئی سرکاری و غیرسرکاری رفاہی ادارے ذہنی اور جسمانی طور پر معذور بچوں کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے میں اپنا کردار بخوبی ادا کررہے ہیں۔ 

ہمارے ملک میں معذور افراد تقریباً ہر شعبے سے وابستہ ہیں بالخصوص کھیلوں کے مقابلوں میں انھوں نے پاکستان کا نام خوب روشن کیا ہے۔ اگر آپ ذہنی، ابلاغی یا جسمانی طور پر کسی معذوری کا شکار ہیں مگر آپ میں کچھ کرگزرنے کی صلاحیت اور لگن ہے تو پھر معذوری آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ساری زندگی معذوری میں گزارنے کے بجائے اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔ فٹنس حاصل کرنے کے لیے آپ کو ورزش کو ترجیحات میں رکھنا ہوگا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ معذور افراد کو اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کی سطح پر زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ ان میں تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ معذور بچوں کی بڑی تعداد محض اس وجہ سے اسکول نہیں جا سکتی کیونکہ ان کے کلاس روم پہلی یا دوسری منزل پر ہوتے ہیں اور انہیں سیڑھیاں چڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسپتالوں، دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ اور تفریحی مقامات پر معذور لوگوں کو الگ سہولتیں فراہم کی جائیں۔ 

ہمارے معاشرے میں تعلیم یا ہنر کے ذریعے معذور افراد کی زندگی کو آسان بنانے کے حوالے سے شعور و آگہی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی معذور بچوں سے گھروالوں، رشتہ داروں، دوست احباب اور پڑوسیوں وغیرہ کا برتاؤ ان کی زندگی اور تربیت پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہمیں بچپن سے انھیں سمجھنے اور ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق ان کی پرورش کی کوشش کرنی چاہیے۔

معذور افراد نے اپنی محنت اور لگن سے معذوری کو شکست دے کر دنیا کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ انھوں نے اپنی صلاحیتوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگرانھیں سہولتیں اور وسائل فراہم کیے جائیں اور تعاون کیا جائے تو وہ بھی عام لوگوں کی طرح اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔ معذور افراد کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ ان کے ساتھ سیاسی، سماجی، معاشرتی اور اخلاقی تعلقات بحال رکھنے چاہئیں۔ 

روزگار کی فراہمی اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ ان کے ساتھ پیش آنے والی معاشرتی نا انصافیوں کو دور کرتے ہوئے ایسا ماحول دینا ہوگا جس سے وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور معاشرے کے مفید اور کارآمد شہری بن سکیں۔ 

تازہ ترین