• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب کسی ملک یا معاشرے کو ہنگامی حالت یا سنگین چیلنج کا سامنا ہوتو انتظامیہ و مقننہ سمیت تمام حلقوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اجتماعی بقا کے تقاضوں کے مطابق مل کر کام کریں اور درپیش چیلنج سے نمٹنے کے لئے ہر مرحلے میں اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جمعرات کے روز کورونا ایس اوپیز کی خلاف ورزی کرنے والے سیاسی جلسوں اور مذہبی اجتماعات پر پابندی کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے جو حکم اور تجزیہ دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عدالت تو اس باب میں حکم دے چکی، مقننہ انتظامیہ اور سماج اگر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو عدالت کیوں مداخلت کرے۔ حقیقت بھی یہی ہےکہ بعض معاملات معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری کا ناگزیر حصہ ہوتے ہیں جن سے من حیث المجموع اجتناب و گریز قانون کی عملداری کے باب میں سوالات کو جنم دیتا ہے۔ دوسری جانب اندرون ملک کورونا کے پھیلائو میں اضافے کی شرح جمعرات تک بڑھ کر 8.16 فیصد ہو گئی تھی ، 39مریض چل بسے جبکہ 3499 نئے کیسز ریکارڈ ہوئے اور فعال کیسز نصف لاکھ سے تجاوز کر گئے۔اسی روز صدرمملکت عارف علوی کی زیر صدارت خصوصی اجلاس میں علمائے کرام نے کورونا کا پھیلائو روکنے کیلئے جلسے جلوس موخر کرنے کی جو اپیل کی اس کا مثبت جواب آنا چاہئے۔ جمعرات ہی کو وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ورچول اجلاس سے ویڈیولنک خطاب میں دس نکاتی پلان پیش کیا جس کے تحت کورونا سے متاثرہ غریب ممالک کے قرضے معاف کرنے اور کم ترقی یافتہ ملکوں کے لئے رعایتی قرضوں کی ضرورت شدت سے اجاگر ہوئی۔ ایسے عالم میں کہ پانچ ترقی پذیر ممالک کورونا وبا کے باعث پہلے ہی ڈیفالٹ کر چکے ہیں اور ورلڈ فوڈ پروگرام خشک سالی کا خدشہ ظاہر کر رہا ہے یہ ضرورت بڑھ گئی ہے کہ قرضوں میں ریلیف کووبا کے خاتمے تک جاری رکھا جائے۔

تازہ ترین