محمد جمال صدیقی
فائنل امتحان کا آغاز ہوگیا تھا، آج میرا پہلاپرچہ تھا اور میں اسکول پہنچنے کے لیے تیز تیز قدم اٹھا تے ہوا جارہاتھا۔ صبح کا وقت ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے دفاتر، کاروباری مراکز، اسکول و کالج جارہے تھے اس لیےمرکزی شاہ راہ پرٹریفک کا بے پناہ ہجوم تھا۔ مصروف شاہ راہ کو پارکرکے دوسری طرف جانا، جان جوکھوں کا کام تھا۔ سڑک عبور کرنے کے لیےپیدل چلنے والوں کی سہولت کے لیے بالائی گزرگاہ یا اوور ہیڈ پل بھی نہیں تھا۔ لیکن یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے سڑک عبور کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ میرا اسکول سڑک کے اسی ٹریک پر واقع تھا جس پر میں چل رہا تھا ۔
اچانک ایک آواز نے مجھے رکنے پہ مجبور کر دیا۔ ’’۔ بیٹا ۔۔۔ بات سنو‘‘ ۔ میں نے بائیں جانب گردن گھمائی تو ایک ستر، اسی سال کے بابا جی کھڑے تھے۔ ۔ جلدی میں ہونے کے باوجود میں رک گیا اور کہا، "جی بابا جی ، فرمائیے ۔۔۔"۔ " بیٹا ، میں بہت دیر سے ادھر کھڑا ہوں ۔۔۔ نظر کمزور ہونے کی وجہ سے یہ روڈ پار نہیں کر سکتا کیونکہ اس سڑک پہ بہت زیادہ ٹریفک ہے ۔۔۔ تم مجھے سڑک پار کروا دو ۔۔‘‘ بابا جی نے التجائیہ لہجے میں کہا تو میں انکار نہ کر سکا ، حالانکہ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ بابا جی کو سڑک پار کروا کے دوبارہ اسی فٹ پاتھ پہ آنے میں مجھے خاصا وقت لگ جائے گا ، مگر میں انکار نہ کر سکا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرادی۔ اس میں مجھے دس ، پندرہ منٹ لگ گئے۔۔۔ دوسری جانب بہ حفاظت پہنچ کر انہوں نے انتہائی شفقت سے میرے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے دعا دی ۔۔ " بیٹا ۔۔۔ سدا خوش رہو ۔۔۔ اللہ تمہاری آنکھوں کا نور سلامت رکھے ۔۔۔ "
میں ان کی دعائوں سے مالامال ہوکر جب اسکول پہنچا توپرچہ شروع ہو چکا تھا۔ ممتحن نے پہلے مجھے اور پھر گھڑی کو دیکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ تم دیر سے آئے ہو ۔ لیکن انہوں نے کمرہ امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ میں نے پرچہ بہت اچھی طرح حل کیاا۔ ایک پیپر کا بوجھ سر سے اتر گیا تھااور اب مجھے دوسرے پرچے کی تیاری کرناتھی۔کہتے ہیں نیگی رائیگاں نہیں جاتی اور اللہ تعالی جلد یا بدیر اس کا صلہ دیتا ہے اور مجھے میری نیکی کا صلہ اسی روز مل گیا۔
میں اور میرا کلاس فیلو عمر امتحان کی تیاری ایک ساتھ کرتے ، وہ رات کو میرے گھر آ جاتا اور ہم چھت پر بیٹھ کر امتحان کی تیاری کرتے ۔عمر کا گھر ان دنوں زیر تعمیر تھا مگر اس کا اصرار تھا کہ آج ہم دونوں اس کے گھر کی چھت پہ پڑھائی کریں گے۔ رات کا کھانا کھا کر میں اس کے گھر پہنچ گیا۔ اس کی چھت پر تعمیراتی سامان کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک ہم لوگ اگلے پیپر کی باتیں کرتے رہے۔ ٹھنڈی ہوا سے ہم دونوں کو نیند سی آنے لگی تو ہم چھت پہ ٹہل ٹہل کر نوٹس یاد کرنے لگے۔ اسی دوران اچانک ٹہلتے ٹہلتے میرے ہاتھ سے قلم نیچے گرگیا ۔
یہ چھت کا وہ حصہ تھا جہاں بلب کی روشنی نہیں تھی اس لیے میں نیچے جھک کر قلم تلاش کرنے لگا۔ ابھی میں نیچے جھکا ہی تھا کہ تعمیراتی سامان میں رکھا ہوا ایک سریا میری بائیں آنکھ کے کنارے بہت زور سے لگا ، جس سے میں وہیں گر گیا۔ میں تکلیف کی شدت سے تڑپ رہا تھا، آنکھ کے کنارے سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا ۔ عمر چیخیں مار کر رونے لگا۔ چیخ پکار کی آواز سن کر عمر کے ابو اور دوسرے گھر والے چھت پر آئے اور مجھے زخمی حالت میں دیکھ کر فوراً اسپتال لے گئے ۔
ڈاکٹر اور تمام لوگ حیران تھے کہ اس ہولناک واقعے میں میری آنکھ بالکل محفوظ تھی ۔۔ سب اسے ایک معجزہ اور میری کسی نیکی کا صلہ قرار دے رہے تھے، تبھی اچانک مجھے وہ بابا جی یاد آگئے جنہیں میں نے سڑک پار کروائی تھی اور جواباً انہوں نے مجھے آنکھوں کے نور و روشنی کی سلامتی کی دعا دی تھی،شاید یہ انہی کی دعاؤں کاثمر تھاجو اللہ تعالیٰ نے میری بینائی محفوظ رکھی تھی۔
اپنی کہانیاں، نظمیں، لطائف، دلچسپ معلومات، تصویریں اور ڈرائنگ وغیرہ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کریں
انچارج صفحہ ’’بچوں کا جنگ‘‘
روزنامہ جنگ،اخبار منزل، فرسٹ فلور، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
bachonkajang@janggroup.com.pk