• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوات کا ’سفید محل‘، سیاحوں کیلئے پُرکشش مقام

سوات کے ملکوتی حسن کا ہرکوئی معترف ہے، یہی وجہ ہے کہ چھٹیوں پر پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیر کو جانے والے یہاں کچھ وقت لازمی گزارتے ہیں۔ پہاڑوں کے درمیان گھری اس خوبصورت وادی میں ایک پہاڑی مقام ’مرغزار‘ ہے، جو اپنے قدرتی حسن اور معتدل موسم کی وجہ سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ سیدو شریف سے 13کلو میٹر اور مینگورہ سے تقریباً 12کلومیٹر کی مسافت پر واقع اس علاقے میں ایک تاریخی ’سفید محل‘آج بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ موجود ہے۔

پہلے اس کا نام ’سواتی تاج محل‘رکھا گیا، پھر اسے ’موتی محل‘ کہا گیا اور آخر میں اس کا نام تبدیل کرکے سفید محل کردیا گیا۔ جدید ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودود المعروف بادشاہ صاحب نے 1930ء کی دہائی میں مرغزار کے حسن کو چار چاند لگانے والے اس محل کی تعمیر کا فیصلہ کیا جو کہ 1941ء میں مکمل ہوا۔ محل کا نقشہ بیلجیئم کے ایک انجینئر نے بنایا تھا۔

سطح سمندر سے 7ہزار فٹ بلندی پر بنائے گئے سفید محل کا رقبہ تقریباً 1800 مربع گز ہے جبکہ اس کی بلندی 35فٹ ہے۔ ریاست سوات کے آخری حکمران میاں گل جہانزیب کے پوتے میاں گل شہریار عامر زیب کے مطابق سفید محل کی دیواروں اور فرش میں لگایا گیا سنگ مرمر راجستھان سے منگوایا گیا تھا۔ اس وقت راجستھان برصغیر میں معدنیات کا ایک بڑا صنعتی مرکز تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ آگرہ کے تاج محل میں استعمال ہونے والا سنگ مرمر بھی اسی کان کا تھا۔ 

اس کے علاوہ بھوپال سے بھی سنگ مرمر منگوایا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ تین حصوں پر مشتمل محل کا مرکزی حصہ بادشاہ صاحب، دوسرا حصہ اہم شخصیات (جس کے لیے سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں) جبکہ تیسرا حصہ اس دور کے انگریز حکمران اور خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ محل کا عقبی حصہ باورچیوں اور دیگر خدام کے لیے تھا۔ ریاستی دورِ حکومت میں یہاں قیام کرنے والی اعلیٰ شخصیات میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم اور ان کے شوہر پرنس فلپ بھی شامل ہیں۔

پورے خطے میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی عمارت تھی، جسے وکٹورین طرز تعمیر پر بنایا گیا تھا۔ سفید محل کی چھت مختلف تہوں پر مشتمل ہے، جن کی شروعات کانسی کی تہہ سے ہوتی ہے، پھر دیودار لکڑی کی تہہ، چونے کی تہہ، مٹی کی تہہ اور بیرونی سمت لوہے کے ساتھ دیودار کی تہہ۔ چھت میں استعمال ہونے والا کانسی بیلجیئم سے درآمد کیا گیا تھا جبکہ اس کی تعمیر کے لیے ترکی سے کاریگر آئے تھے۔ 

عمارت میں لگائے گئے برقی آلات اور چھت میں لگے پنکھے (جو آج بھی کام کرتے ہیں) انگلستان سے منگوائے گئے تھے۔ چھت کی اونچائی کی وجہ سے گرمی نہیں ہوتی اور محل کو بھی اضافی قوت فراہم ہوتی ہے۔ محل کی تعمیر میں سیمنٹ کی جگہ چونے کو تعمیراتی مواد کے طور پر استعمال کیا گیا۔ سبزہ زار میں گھرے سفیدمحل کا حسن دیکھنے والوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔

محل میں ایک ڈرائنگ روم، ایک ڈائننگ ہال، ایک میٹنگ روم اور ایک بادشاہ صاحب کا ذاتی کمرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ محل کے احاطے میں دو تین درجوں میں متعدد کمرے بنائے گئے ہیں۔ بادشاہ صاحب موسم گرما میں یہاں قیام کرتے ہوئے جملہ ریاستی امور نمٹاتے تھے اور یہیں سے شاہی فرمان جاری کرتے تھے۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ موسم سرما میں ریاست سوات کا دارالخلافہ سیدو شریف اور موسم گرما میں مرغزار ہوا کرتا تھا۔ بادشاہ صاحب کے ہمراہ ان کے اہل خانہ، وزیر، مشیر اور خان خوانین بھی سفید محل میں قیام کرتے تھے، جن کے لیے مختلف کمرے مخصوص تھے۔ 

دوسرے درجے پر تعمیر شدہ کمروں میں وزیر، مشیر اور خان خوانین جبکہ تیسرے درجے میں تعمیر شدہ کمروں میں اہل خانہ ہوا کرتے تھے۔ سفید محل میں ایک خوبصورت وسیع لان بھی موجود ہے، جہاں بیٹھنے کے لیے سنگ مرمر کے میز اور بینچیں بنائی گئی ہیں۔ بادشاہ صاحب چونکہ ایک مذہبی شخصیت تھے، اس لیے سفید محل کے کھلے حصے میں کونے پر ایک مسجد بھی بنائی گئی۔ بادشاہ صاحب یہاں وزیروں، مشیروں اور خوانین کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کو ترجیح دیتے اور قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک ہائیکنگ ٹریک بھی تھا، جس پر بادشاہ صاحب اپنے رفقاء کے ہمراہ ہائیکنگ کیا کرتے تھے۔ یہاں چنار کا ایک 200سال پرانا درخت بھی موجود ہے جو وسیع حصے کو سایہ فراہم کرتا ہے، اس کے ساتھ پانی کا ایک چشمہ بھی ہے۔

جب تک بادشاہ صاحب زندہ رہے یہ محل بھی آباد رہا، یہاں ملکی و غیر ملکی مقتدر شخصیات اور مہمانوں کی آمدورفت جاری رہی۔ 1971ء میں بادشاہ صاحب کے انتقال کے چند سال بعد عمدہ طرز تعمیر کے اس نمونے کو سیاحتی مقام میں تبدیل کردیا گیا۔ تاہم، کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اسے با قاعدہ ایک ہوٹل کا درجہ دے دیا گیا۔ اب یہ محل تاریخی حیثیت، اعلیٰ طرز تعمیر اور قیام کی وجہ سے سیاحوں کی پسندیدہ منزل ہے۔ یہاں بادشاہ صاحب کا ذاتی کمرہ اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔

تازہ ترین