• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی معاشرے میں قیام امن کے حوالے سے پولیس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جس کے افسران اور جوان جرائم کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتے ہیں اور امن و امان کی خاطر اپنی قیمتی جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ سندھ خصوصاً کراچی پولیس کی تاریخ بھی ایسی ہی قربانیوں سے بھری ہے۔ اِس کی حالیہ مثال گزشتہ دنوں کشمور میں پیش آنے والے وہ واقعہ ہے جس میں ایک اے ایس آئی نے اپنی بیٹی کی جان خطرے میں ڈال کر کسی دوسرے کی بیٹی کی جان بچائی تھی اور پولیس کے اِس مثالی کردار کو ملک بھر میں سراہا گیا۔ بچے بالخصوص بیمار بچے معاشرے کا وہ طبقہ ہوتے ہیں جو حساس طبیعت کے حامل ہوتے ہیں اور اپنے ارد گرد پیش آنے والے واقعات سے بہت جلد اثر لیتے ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے اُس وقت ہوا جب گزشتہ دنوں میرے ادارے میک اے وش فائونڈیشن سے کینسر کے مرض میں مبتلا 14 سالہ بچے حسنین نے پولیس مین بننے کی منفرد خواہش کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں جب میں نے ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن سے رابطہ کیا تو انہوں نے حسنین کی خواہش کی تکمیل کیلئے فوراً رضامندی ظاہر کردی اور اپنے ماتحت افسران کو بچے کی خواہش کی تکمیل کے انتظامات کرنے کی ہدایت کی۔ بچے کو جب یہ خوشخبری سنائی گئی تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور اس طرح گزشتہ دنوں ایڈیشنل آئی جی کراچی کے دفتر میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کے علاوہ کراچی کے دیگر ڈی آئی جیز جاوید اکبر، مقصود میمن، امین یوسف زئی، جاوید مہر، نعمان صدیقی، ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ، حسنین کے والدین، میک اے وش کے رضاکار اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔

میں جب پولیس یونیفارم میں ملبوس حسنین کا ہاتھ تھامے آئی جی آفس پہنچا تو ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے بچے کا استقبال کیا۔ اس موقع پر ایک پروقار تقریب میں انہوں نے حسنین کو اے ایس پی کا بیج لگایا، اس سے حلف لیا اور اُسے ایک دن کیلئے پولیس فورس میں شامل کرنے کا اعلان کیا۔ اپنی خواہش کی تکمیل پر بچے کی خوشی قابل دید تھی ۔ اپنی تقریر میں ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے کہا کہ کراچی پولیس کیلئے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا بیمار بچے کی پولیس اہلکار بننے کی منفرد خواہش پوری کررہی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کے لوگ شہر میں امن و امان برقرار رکھنے میں پولیس کی قربانیوں اور کاوشوں کو سراہتے ہیں۔ اس موقع پر میں نے ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کا شکریہ ادا کیا جن کی کوششوں سے آج وِش چلڈرن محمد حسنین کی پولیس مین بننے کی خواہش پوری ہوئی۔

بعد ازاں حسنین کو پولیس موبائل میں کراچی شہر کی پیٹرولنگ کرائی گئی۔ اس دوران حسنین کو وائرلیس پر ایک جگہ اسٹریٹ کرائم کی واردات کا پیغام موصول ہوا جس پر حسنین دیگر پولیس نفری کے ہمراہ جائے واردات پر پہنچا اور اسٹریٹ کرائم میں ملوث دو موٹر سائیکل سواروں کو گرفتار کرلیا۔ بچے کو اس کی بہادری کے صلے میں ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے تعریفی سرٹیفکیٹ سے نوازا اور اپنی طرف سے کچھ نقد انعام بھی دیا۔ تقریب کے بعد اے آئی جی نے بچے کو خود رخصت کیا۔ حسنین چاہتا تو میک اے وش سے موبائل فون، لیپ ٹاپ، ٹیلیویژن یا کوئی اور چیز بھی مانگ سکتا تھا یا پھر وہ ارتغرل غازی کے ہیرو اور کسی سیلیبرٹی سے ملنے کی خواہش ظاہر کرسکتا تھا لیکن بچے کی پولیس مین بننے کی خواہش اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ پولیس کو اپنا ہیرو تصور کرتا ہے جو یقیناً پولیس کیلئے بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔

میک اے وش ایک عالمی ادارہ ہے جس کی بنیاد آج سے 40 سال قبل اس وقت رکھی گئی جب امریکہ کے شہر فیونکس سے تعلق رکھنے والے کینسر کے مرض میں مبتلا 7 سالہ بچے کرس نے پولیس مین بننے کی خواہش ظاہر کی جسے مقامی لوگوں نے پولیس کی مدد سے پورا کیا۔ کرس کی یہ خواہش میک اے وش انٹرنیشنل کے قیام کا سبب بنی جو بعد ازاں 50 سے زائد ممالک میں پھیل گئی اور پاکستان بھی اس عالمی ادارے کا رُکن ہے جو پاکستان میں اپنے قیام سے لے کر اب تک 13 ہزار سے زائد لاعلاج بچوں کی خواہشات کی تکمیل کرچکا ہے۔آج 40 سال بعد کینسر کے مرض میں مبتلا کراچی کے ایک بچے حسنین نے کرس کی طرح پولیس مین بننے کی خواہش ظاہر کرکے اس کی یاد تازہ کردی جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پاکستانی پولیس کا سوفٹ امیج اجاگر ہوگا جو یقیناً پاکستان اور بالخصوص پولیس کیلئے ایک اعزاز کی بات ہے۔

نوٹ: میں گزشتہ دنوں اپنی علالت کے باعث اسپتال میں زیر علاج رہا۔ قارئین سے درخواست ہے کہ میری مکمل صحت یابی کیلئے دعا کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین