انقرہ /تہران (جنگ نیوز )ترکی اور ایران کے سفارتی تعلقات کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں،ترک صدر طیب ایردوان کی جانب سے آذربائیجان کی فوج سے خطاب کے دوران پڑھے گئے چند اشعار پر ایران نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ترک سفیر سے احتجاج کیا،جس کے بعد ترکی نے ایرانی سفیر کو طلب کیا اور احتجاج ریکارڈ کروایا۔تفصیلات کے مطابق ترکی نے صدر رجب طیب اردگان کے خلاف ایران کی طرف سے ’اشتعال انگیز‘ زبان استعمال کرنے پر تہران سے احتجاج کیا ہے۔ ایران کو اس نظم پر اعتراض ہے، جو صدر اردگان نے آذربائیجان میں پڑھی تھی۔صدر اردگان نے ایک نظم پڑھی تھی، جو آذری قوم کی آزادی اور خود مختاری کو بیان کرتی تھی۔ ایران نے اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نظم ایرانی اقلیتی آذری قوم اپنے مقاصد اور ایران سے علیحدگی کیلئے استعمال کر سکتی ہے۔ ایران کے شمال مغربی صوبے آذربائیجان کے بالکل قریب واقع ہیں اور وہاں پر آذری قوم کے باشندے آباد ہے۔ وہاں آذربائیجان، آرمینیا اور ایران کی سرحدوں کا تعین دریائے اراس کرتا ہے۔اگلے دن ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا ٹوئٹر پر کہنا تھا، صدر اردگان کو یہ نہیں بتایا گیا کہ انہوں نے باکو میں کیا کچھ برے طریقے سے پڑھا ہے۔ اس کا مطلب اراس کے شمالی علاقوں کی وطن عزیز سے زبردستی علیحدگی ہے۔‘‘ایرانی میڈیا کے مطابق جو نظم ترک صدر نے پڑھی تھی، وہ سیاسی تحریک ʼپان ترکیسم‘ کی بنیادی علامت ہے۔ یہ وہ سیاسی تحریک ہے، جو اسی کی دہائی میں شروع ہوئی تھی اور اس کا مقصد ترک نسل کو ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے متحد کرنا ہے۔اس کے بعد ایران نے تہران میں ترک سفیر کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ صدر ایردوآن کی نظم ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے اور اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘اس کے جواب میں ترکی نے اپنے ہاں ایرانی سفیر کو طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے ʼبے بنیاد دعوے‘ بند کیے جائیں۔ اس کے بعد ترک صدارتی دفتر سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا، جس کے مطابق، ہم اپنے صدر کے خلاف اشتعال انگیز زبان کے استعمال کی مذمت کرتے ہیں۔ اس بیان کی مذمت کرتے ہیں، جو ہمارے ملک اور نظم کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ اس نظم کے معنی جان بوجھ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کیے جا رہے ہیں۔‘‘