• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات ہو چکے، قوم اپنے سیاسی مقدر کا فیصلہ کر چکی، قومی زندگی ایک نئے دور میں داخل ہو چکی اس لئے اب انتخابی بخار کو بھی اتر جانا چاہئے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے یہی جمہوری روایات کا حسن ہے اور یہی ہمارا رویہ بھی ہونا چاہئے۔ نئی سیاسی زندگی کے آغاز پر علاقائی، جماعتی اور ذاتی نفرتوں کو دفن کر کے آگے بڑھنے کا پروگرام بنایئے کہ پاکستان مسائلستان بن چکا ہے اور اسے مسائل کی دلدل سے نکالنے کیلئے قومی اتفاق ضروری ہے۔ اس موقع پر کراچی کی علیحدگی کی دھمکی اور قوم سے تازہ تازہ مینڈیٹ لینے والے وزیر اعظم کو پنجاب کا وزیر اعظم قرار دینا علاقائی نفرتوں پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے اور یہ کام کسی بھی قومی سیاستدان کو زیب نہیں دیتا۔ اگر آپ واقعی ہی نسلی یا علاقائی لیڈر نہیں تو پھر قومی دھارے میں رہیے ۔ آپ قومی دائرے میں رہیں گے تو دوسرے صوبوں میں بھی آپ کو پذیرائی ملے گی۔
ایک پختہ ذہن اور جمہوری سوچ کے لیڈر کا ردعمل وہ ہوتا ہے جس کا اظہار جناب غلام احمد بلور نے کیا اور جن کے الفاظ میرے دل کے تاروں کو چھو گئے۔ آپ کو علم ہے کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ اے این پی رہی ہے۔ کونسا اے این پی کا بڑا لیڈر ہو گا جو بھائی، بیٹے، کسی قریبی عزیز، دوست سے محروم نہیں ہوا یا خود بھی حملوں کی زد میں نہیں آیا۔ گھر میں صف ماتم بچھی ہو تو جذبات کو قابو میں رکھنا ”پیغمبرانہ“ شان ہوتی ہے۔ آفرین ہے اے این پی پر جس نے مسلسل پانچ برس دہشت گردی کے خوف اور بموں کے شور میں گزارے لیکن ایک موقع پر بھی نہ علیحدگی کی دھمکی دی، نہ اپنے موقف سے ہٹے، نہ عزم کمزور ہوا اور نہ ہی جمہوریت سے تائب ہونے کی بات کی۔ جناب بشیر احمد بلور مرحوم نہایت مہذب انسان تھے ان کی شہادت نے جناب غلام احمد بلور کو ایک طاقتور بازو سے محروم کر دیا لیکن انہوں نے حواس پہ قابو رکھا۔ میں ہمیشہ سے اے این پی پر تنقید کرتا رہا ہوں لیکن خیر اے این پی کیا ساری سیاسی جماعتیں مجھ سے ناخوش ہیں کیونکہ میں نہ کسی کی خوشامد کرتا ہوں اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں۔ پاکستان میری جماعت اور قائد اعظم میرے سیاسی لیڈر ہیں۔ ہمارے لیڈروں کا اپنا مزاج ہے۔ انہیں سچی بات کہنے والا اور مثبت تنقید کرنے والا بھی ہرگز گوارہ نہیں ہوتا چنانچہ وہ ایسے لوگوں کو اپنے مخالفین کے خانے میں شامل کر لیتے ہیں۔ بہرحال جناب غلام احمد بلور کے اس فقرے نے مجھے متاثر کیا۔ شکست کو تسلیم کرتے ہوئے بلور صاحب نے کہا کہ اگرچہ دھاندلی ہوئی لیکن اتنی نہیں جتنا ووٹوں کا فرق ہے۔ اس لئے میں عوام کا فیصلہ کھلے دل سے قبول کرتا ہوں۔ ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ نئی صبح طلوع ہو چکی۔ اس کا کھلے دل سے استقبال کیجئے۔ مسلم لیگ (ن) بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ یہ وفاق اور پنجاب میں مضبوط حکومتیں بنا سکتی ہیں۔ معلق (ہنگ) پارلیمنٹ کے اندازے دم توڑ گئے اور میں اسے قومی زندگی کے لئے نیک شگون سمجھتا ہوں۔ حکومت مضبوط ہو گی تو کارکردگی کی توقع کریں گے ورنہ کمزور حکومتیں اور کمزور حکمران ہمہ وقت اپنے آپ کو بچانے میں ہی مصروف رہتے ہیں۔ یہ ایک لحاظ سے پاکستانی عوام کے سیاسی شعور کا ثبوت ہے۔ اس موقع پر میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، حمزہ اور بیٹی مریم کو مبارکباد دیتا ہوں اور ان کی کامیابی کے لئے دعاگو ہوں۔ میں انتخابی اندازوں اور پیش گوئیوں سے پرہیز کرتا رہا کیونکہ مجھے انتخابات سے کچھ حیرتیں برآمد ہوتی محسوس ہوتی تھیں۔ سیاسی پنڈت مسلم لیگ (ن) کو 80 سے لے کر 100 تک مرکز میں اور کوئی 80،90 نشستیں پنجاب میں دیتے رہے۔ پہلی حیرت تو یہ برآمد ہوئی کہ مسلم لیگ (ن) مرکز میں آج تک 125 اور پنجاب میں 204 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے اور ابھی ان میں مزید اضافہ ہو گا۔ انتخابی رجحان کے حوالے سے موجودہ صورتحال 1997ء کے انتخابی رجحانات سے قریب تر ہے۔ پی پی پی کی کارکردگی بھی 1997ء کی مانند رہی لیکن اس بار اس کی کارکردگی کا بیڑا غرق کرنے میں اس کے پانچ سالہ دور حکومت نے اہم کردار سر انجام دیا۔ پی پی پی کے دونوں وزراء اعظم ہار گئے البتہ سندھ میں پی پی پی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ حیرت ہے کہ زرداری صاحب کے باوجود پی پی پی کا رورل سندھ میں ووٹ بنک قائم ہے۔ اب زرداری صاحب کی اپنی صدارت خطرے میں ہے۔ دیکھتے ہیں اس موقع پر ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ کسی حد تک منصفانہ انتخابات کروانے کا کریڈٹ زرداری صاحب کو دیجئے کہ یہ انصاف کا تقاضا ہے۔ انتخابات اس حوالے سے نہایت اہم پیش رفت ہیں کہ پہلی بار ایک منتخب حکومت نے پانچ سال مکمل کئے اور ایک منتخب حکومت سے اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہو رہا ہے۔ جس طرح میاں صاحب نے پی پی پی کو پانچ سال برداشت کیا اسی طرح اب پی پی پی سے بھی توقع کی جانی چاہئے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار میاں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم اور میاں شہباز شریف تیسری بار وزیر اعلیٰ بنیں گے۔ الیکشن انتظامات میں خاصی خامیاں دیکھنے میں آئیں۔ اکثر مقامات پر ووٹر ووٹ ڈالنے میں ناکام رہے۔ بہت سے مقامات پر دھاندلی بھی ہوئی ، بعض مقامات پر عملے کے بارے میں بھی شکایات سننے میں آئیں اور دہشت گردی کا خوف بھی تھا اس کے باوجود ٹرن آؤٹ ساٹھ فیصد کے لگ بھگ رہا جو حیرت انگیز ہے۔ پورے ملک میں جوش و جذبہ دیکھنے میں آیا جو عوام کی جمہوریت سے وابستگی کی علامت ہے اور پہلی بار نوجوان اس طرح متحرک ہوئے کہ گلیاں سڑکیں کانپنے لگیں۔ یہ نوجوانوں کے جمہوریت پر اعتماد کا اظہار ہے۔ پہلی بار پانچ سو سے زیادہ خواتین انتخابی میدان میں اتریں جو روشن مستقبل کی دلیل ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک تیسری سیاسی قوت ابھری جس نے نوجوانوں کو متحرک کیا، نئے پاکستان کا خواب دکھایا اور جوش و جذبہ پیدا کر کے پاکستان کی سیاست میں اپنے لئے مستقل مقام پیدا کر لیا۔ وہ ہے تحریک انصاف جو زیرو سے وفاق میں 33نشستوں تک اور خیبر پختونخوا میں اکثریت بن کر سامنے آئی ہے۔ تحریک انصاف کی نشستیں توقع سے کم ہیں۔ اس نے دھاندلی کا الزام بھی لگایا ہے لیکن میرے محدود مشاہدے کے مطابق تحریک انصاف کی نمایاں کمزوری اس کی ناتجربہ کاری تھی۔ تحریک انصاف کے نو آموز امیدواران انتخاب لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں گھاگ امیدواران موجود تھے۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ آئے گی تو پتہ چلے گا لیکن میرا اپنا اندازہ ہے کہ تحریک انصاف نے تناسب کے حساب سے ووٹ کافی لئے اور جتنے ووٹ لئے اتنی نشستیں نہ لے سکی۔
پنجاب میں اس کے ہارنے والے اکثر امیدواران پانچ سے دس ہزار کے فرق سے ہارے۔ نئی پارٹی ہونے کے باوجود تجربہ کار مخالفین کے مقابلے میں اتنے ووٹ لے جانا بہرحال ایک کارنامہ ہے۔ یہ پیش گوئی کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ اگر تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں اپنے دعوے کے مطابق ماڈل حکومت بنائی اور مرکزی اسمبلی میں موثر اپوزیشن کا رول نبھایا تو اس کا مستقبل روشن ہے۔ پارٹی کی اندرونی کمزوریوں، تنظیمی مسائل اور دوسری خامیوں کو چھیڑنے کا یہ موقع نہیں۔ کالم نگاروں کو مشورے دینے کی بیماری لاحق ہوتی ہے۔ نئی حکومت کو جن گھمبیر مسائل کا سامنا ہے وہ ہر ایک کو زبانی یاد ہیں۔ ان کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں البتہ قارئین کے اصرار پر میاں نواز شریف تک یہ مشورہ پہنچانا چاہتا ہوں کہ اس بار ملکی صدارت کیلئے بلوچستان پر نظر ڈالیں لیکن اگر سندھ سے صدر لینے کا فیصلہ ہو تو دیرینہ وفادار سید غوث علی شاہ کو ذہن میں رکھیں۔ میاں شہباز شریف کو پنجاب میں ہی رکھیں۔ مسلم لیگ (ن) کی شاندار کامیابی اور صوبائی اسمبلی کے نتائج ان کی محنت، بھاگ دوڑ، لگن اور خاص حد تک کارکردگی کے مرہون منت ہیں۔ ہم ان کی سستی روٹی سکیم، ٹیکسی سکیم اور حکومتی خزانے کے زیاں پر تنقید کرتے رہے لیکن اہل پنجاب کو ان کی یہ ادائیں پسند آ گئیں۔ ہم ”بڈھے“ ان کی گلوکاری پر اعتراض کرتے رہے لیکن اہل پنجاب ان کی سریلی آواز کو ووٹ دے گئے۔ ان کو فقط ایک ایسے ہاتھ کی ضرورت ہے جو ان کی جلد بازی کو کنٹرول کر سکے۔ سینکڑوں باتیں رہ گئیں ۔ یار زندہ صحبت باقی۔
تازہ ترین