• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر لحاظ سے میں پیدل ہوں۔ یہ قصہ میں آنے والے ع سے عالیشان انتخابات سے کچھ روز پہلے تحریر کر رہا ہوں۔ پیدل چلتے ہوئے یہ قصہ منگل 14 مئی کے روز آپ تک پہنچے گا۔ تب تک اگر کسی وجہ سے، اور وجہ ہم سب جانتے ہیں، انتخابات ملتوی ہو گئے تو نتائج کے بجائے میڈیا والے طرح طرح کے مباحثے آپ کو دکھا رہے ہوں گے اور سنا رہے ہوں گے اور پڑھنے کو دے رہے ہوں گے۔ انتخابات ملتوی کرانے کی وجہ پیچیدہ نہیں ہے، سادہ سی ہے۔ اونٹ اگر مجوزہ کروٹ بیٹھ گیا تو انتخابات عین وقت پر ہوں گے۔ اگر اونٹ مجوزہ کروٹ نہیں بیٹھا تو انتخابات ملتوی ہوں گے اور اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک اونٹ مجوزہ کروٹ بیٹھنے پر راضی نہ ہو جائے۔ فی الحال اونٹ کو مجوزہ کروٹ بٹھانے کی سر توڑ کوششیں ہو رہی ہیں۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ گپی کے بھائی کھپی نے اونٹ کے بھیجے میں ایک آلہ نصب کروا دیا ہے۔ اس آلہ سے اونٹ کو ہدایات ملتی رہتی ہیں۔ وہ مخفی ہدایات گپی، گپی کے بھائی کھپی اور اونٹ کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ الیکشن کمیشن کے افسران نے دال منگوائی، پاپڑ بیلے مگر انتخابات کی ریل پیل کے دوران ایک اونٹ کی موجودگی کا معمہ حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو اونٹ کا نشان الاٹ کیا ہے لیکن انتخابی نشان والے اونٹ کا گپی اور گپی کے بھائی کھپی کے اونٹ سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ عام اونٹوں کی طرح انتخابی نشان والا کاغذی اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہیں سکتا۔ وہ عمر بھر کھڑا رہتا ہے۔ گپی اور گپی کے بھائی کھپی کا اونٹ عام اونٹوں کی طرح کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔ مگر کھپی نے اپنے بھائی گپی کی فتح کو یقینی بنانے کے لئے اونٹ کے بھیجے میں امریکن آلہ فٹ کروا دیا ہے۔ اب اونٹ کو مجوزہ کروٹ بیٹھنا ہے اور کھپی کے بھائی گپی کو سرخرو کرانا ہے۔
کراچی کو نہ جانے کیوں منی یعنی ننھا منا پاکستان کہتے ہیں۔ پاکستان میں کسی جگہ اتنی خونریزی اور غارت گری نہیں ہوتی جتنی کراچی میں ہوتی ہے پھر کس لحاظ سے کراچی کو ننھا منا پاکستان کہا جاتا ہے! اگر اس لحاظ سے کراچی کو ننھا منا پاکستان کہا جاتا ہے کہ اس شہر میں پاکستان کے تمام صوبوں کے لوگ بڑی تعداد میں رہتے ہیں، تو پھر یہ محاورہ کچھ کچھ اپنے پلّے پڑتا ہے۔ بلاشبہ کراچی میں پاکستان کے دیگر صوبوں سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں۔ کہتے ہیں کہ کراچی میں پٹھانوں کی تعداد پشاور اور کابل سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ریل گاڑیوں میں بھی پاکستان کے چاروں صوبوں کے لوگ سفر کرتے ہیں لیکن ریل گاڑیوں اور پلیٹ فارموں کو کوئی بھی منی یعنی ننھا منا پاکستان نہیں کہتا۔ ہم فقیر اس طرح کے دلائل اور بحثوں سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ ہم مان لیتے ہیں کہ کراچی منی پاکستان ہے، ننھا منا پاکستان ہے۔
ننھے منے پاکستان کے اطراف سمندر میں کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں۔ ان جزیروں پر صدیوں سے مچھیرے اور ملاح آباد ہیں۔ بلڈر مافیا اور لینڈ گریبرز یعنی زمینوں پر قبضہ کرنے والی قوتوں نے کراچی کے اطراف بلکہ منی پاکستان کے اطراف سمندر میں قدرتی جزائر دیکھ لئے ہیں۔ سنا ہے کہ رخصتی سے چند روز پہلے حکومت نے دو جزیرے غیرملکی سرمایہ داروں کو بیچ دیئے تھے۔ ان جزیروں پرچھوٹے چھوٹے جدید ترین دو شہر آباد ہوں گے جہاں اعلیٰ معیار کے ہوٹل، کلبیں، پب یعنی شراب خانے مساج پارلر، کشتی رانی اور پانی پر کھیلوں کے مکمل انتظامات ہوں گے۔ جہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے وہاں جوئے کے کیسینو بھی ہوتے ہیں۔ دشمنوں نے مشہور کیا ہے کہ یہ لین دین وزیر اعلیٰ ہاؤس میں کھپی کے بھائی گپی کی موجودگی میں ہوئی تھی۔ بدی خواہوں نے اڑا دی ہے کہ ہونے والے انتخابات میں کھپی کا بھائی گپی منی پاکستان کے اطراف سمندری جزیروں پر بسنے والی اللہ سائیں کی مخلوق کی اسمبلی میں نمائندگی کرنے کے لئے سامنے آرہا ہے۔ اگر اونٹ مجوزہ کروٹ بیٹھا اور انتخابات وقت مقرر پرہوئے تو پھر اس وقت تک جب آپ یہ قصہ پڑھ رہے ہیں کھپی کا بھائی گپی بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر اپنے بھائی کھپی اور محترمہ پپی کی مبارکبادیں وصول کر رہا ہوگا۔ یہ میری نہیں، بلکہ خدا کی بستی اور اللہ کی بستی کے درمیان بسنے والی برباد بستی کے باسیوں کی پیشگوئی ہے۔ اگر خدا بھی کھپی کے بھائی گپی کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے تو اس کی ضمانت ضبط ہو جائے گی۔ مگر خدا کو تو پاکستانیوں نے پاکستان سے خدا حافظ کر دیا ہے! اب تیرا کیا ہوگا اقبال؟ اگر کشکول توڑ کر پاکستانیوں نے خودی کو بلند کر بھی لیا، تب ان سے کون پوچھے گا، بتا تیری رضا کیا ہے؟ خدا بے چارا تو پاکستان سے رخصت ہو چکا ہے! یوں سمجھ لیجئے کہ منی پاکستان کے جزیروں کی خیر نہیں ہے۔ بس کھپی کے بھائی گپی کے آنے کی دیر ہے۔ منی پاکستان کا بہت کچھ کھپ جائے گا۔
کھپی کا اونٹ اگر مجوزہ کروٹ بیٹھا تو پھر انتخابات مقرر وقت پر ہو چکے ہوں گے۔ جب آپ یہ قصہ پڑھ رہے ہوں گے تب الیکشن کے نتائج آچکے ہوں گے سندھ کا اگلا وزیر اعلیٰ گپی مچھیروں اور ملاحوں کی نمائندگی کرنے کے لئے سندھ اسمبلی پہنچ چکا ہو گا۔ بچو بھائی کی پیشگوئی کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا نقشہ کچھ اس طرح کا ہوگا۔ کئی ساسیں اپنی بہوؤں کے ہمراہ اسمبلیوں میں پہنچ چکی ہوں گی۔ سسر اور داماد، چاچے، مامے، خالو، سالے اور ہم زلف بھی اسمبلیوں کی رونق بن چکے ہوں گے۔ مائیں، بیٹیاں، بیٹے بھی اپنے اپنے والد کے ساتھ سجے سجائے نظر آرہے ہوں گے۔ ملک کے چیدہ چیدہ پیر سائیں، وڈیرے، چوہدری، خان ، سردار، لٹھ بردار، مانجھے سانجھے ، رانجھے، گھوڑے اور گاڑیاں دوڑانے والے، نزلہ کا علاج نیویارک میں کرانے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں براجمان ہوچکے ہوں گے۔ ملّا جمائیاں لے رہے ہوں گے۔گپی کے بھائی کھپی کی مشہور زمانہ مسکراہٹ روکے نہیں رک رہی ہوگی۔ یہ سب تب ہوگا جب اونٹ مجوزہ کروٹ بیٹھے گا۔ ہے کوئی مائی کا لال جو بچو بھائی سے شرط لگائے! کھپی کا بھائی گپی منی پاکستان کھپانے آرہا ہے۔ عالیشان انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بغل بچے اگلے پانچ برس تک کھپی کے سائے میں پل کر جواں ہوں گے اورگاتے پھر رہے ہوں گے۔
کھپی کے سائے میں ہم، پل کر جواں ہوئے ہیں
کھپی کمال کا ہے، قومی نشاں ہمارا
تازہ ترین