مفتی احمد میاں برکاتی
ارشادِ ربانی ہے:’’اے اہل ایمان! خدا سے ڈرتے رہو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہوــ‘‘۔(سورۃ التوبہ)جھوٹ ایک ایسی مہلک ترین بیماری ہے جو انسان کا کچھ نہیں چھوڑتی۔نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف گئے تو آپ نے وہاں دیکھا کہ جھوٹ بولنے والے شخص کی باچھوں کو قینچی کے ساتھ چیرا جارہا ہے۔ انسان جب کوئی غلط کام کرتا ہے تو پھر اسے چھپانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے ،مگر وہ جرم چُھپتا نہیں تو پھراس جرم کو چھپانے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بولتا ہے،مگرنتیجہ پھر بھی ذلت اوررسوائی،ندامت و شرمندگی کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔
صحیح مسلم میںنبی کریم ﷺ سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ’’ انسان جھوٹ بولتا ہے اور ہمیشہ جھوٹ بولنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں بھی جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ،اور آدمی سچ بولتا ہے اور ہمیشہ سچ کی کوشش میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی سچا لکھ دیا جاتا ہے‘‘
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔ (صحیح بخاری)
حضرت ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے، اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش خلق ہو۔(سنن ابوداؤد)
حضرت معاویہ قشیریؓ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا : تباہی ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔(سنن ترمذی)
حضرت ابوہریرہ ؓکہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ظن و گمان کے پیچھے پڑنے سے بچو یا بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، نہ ٹوہ میں پڑو اور نہ جاسوسی کرو۔(صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص میں چار خصلتیں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے ۔٭ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔٭ اور جب کوئی معاہدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔٭ اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔٭ اور جب کسی سے جھگڑا ہو تو گالیاں دے۔(متفق عليہ)
جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ بندہ جب جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کی بدبو سے ایک میل دور ہو جاتا ہے‘‘۔اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جھوٹ کس قدر خبیث اور بدبودار فعل ہے، مگر ہم اپنے گردو پیش میں نظر دوڑائیں تو ہمیںیہ چیز بکثرت نظر آئے گی کہ جھوٹ کو گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ہماری سیاست جھوٹ کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے، خو د سیاست دان اس چیز کا اعتراف کرتے ہیں۔کاروبار میں جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے،لوگوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے جب یہ چیزیں ہوں گی تو برکتیں خود بخود اٹھ جائیں گی۔ پھر ہم کہتے ہیں ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں ،دعائیں کیسے قبول ہوں جب کھانا حرام کا ،پینا حرام کا،لباس حرام کا، کاروبار سود کی بنیاد پر ،بات بات میں جھوٹ، ایک دوسرے کی چغلیاں، غیبتیں،فراڈ،دھوکہ دہی،گالیاں،بلا وجہ لعن طعن، یہی وہ چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جن کی ہماری نظر میں کوئی حیثیت نہیں، مگر ایک وقت آئے گا یہ گناہ پہاڑ بن جائیں گے اور ان تمام گناہوں کا سبب ایک چھوٹی سی زبان ہے ۔انسان اگر اس کو قابو میں رکھے تو بہت ساری گھریلو پریشانیوں اور بیرونی مصیبتوں سے نکل آئے گا۔
سیدنا حضرت عمرفاروقؓ ایک دن حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی زبان کو پکڑ کر کھینچ رہے ہیں۔حضرت عمرؓ نے عرض کیا ،اللہ آپ کی مغفرت فرمائے کیا بات ہے؟تو حضرت ابو بکر صدیقؓ فرمانے لگے اس زبان نے مجھے مصیبتوں میں ڈالا ہے۔اسلام کے وہ سچے محافظ جن کا اٹھنا بیٹھنا ،سونا جاگنا اور روزمرہ زندگی کے تمام معاملات اسلام کے مطابق گزرتے تھے۔جن کے بارے میں قرآن نے فیصلہ کر دیا کہ ’’صحابہ اللہ سے راضی اور اللہ ان سے راضی ‘‘کیا ان کے بارے میں ہم سوچ سکتے ہیں کہ وہ زبان کا غلط استعمال کرتے ہوں گے؟یقیناً ایسا نہیںہے، لیکن پھر بھی آخرت کا ڈر اور خوف ان کے دلوں میں اس قدرجاگزیں ہو چکا تھا کہ وہ ہر وقت اپنے محاسبے میں لگے رہتے تھے۔
جامع ترمذی میں حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ ’’صبح کے وقت ابنِ آدم کے تمام اعضازبان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اس کی منّت کرتے ہیں کہ تو ہمارے بارے میں اللہ سے ڈر جا ، ہمارا تعلق و وابستگی تجھ سے ہی ہے ،تو اگر سارا دن سیدھی رہی تو ہم سیدھے رہیںگے اور تو اگر ٹیڑھی ہو گئی تو ہم سب ٹیڑھے ہو جائیں گے۔