• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن میں اپنے بڑے بوڑھوں سے جنات، پریوں اور بھوت پریت کی کہانیاں یا واقعات سننے کو ملتے تھے جنہیں وہ حسب ضرورت ہمیں ڈرانے دھمکانے یا کسی کام پر مجبور کرنے کیلئے دہرایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ہمیں ’’رانٹس‘‘ نامی مؤنث اور ’’بریم راچوک‘‘ نامی مذکر مخلوق سے بھی خوفزدہ کرایا جاتا تھا جو غالباً کشمیری الاصل ترکیبات ہیں۔ اول الذکر دور دراز اور جنگلی علاقوں میں سفر کرنے والوں کا راستہ روکنے، انہیں اپنی منزل سے بھٹکانے اور بعض اوقات قتل کرنے کی کوششیں کرتی اور روایات کے مطابق اکثر موقعوں پر رفع حاجت کے وقت مسافروں کے سامنے آتی تھی۔ عرف عام میں اس کو اس کے الٹے پاؤں سے پہچانا جاتا تھا۔ اس کے برعکس ’’بریم را چوک‘‘ تاریک راہوں پر چلنے والے مسافروں کے سامنے اچانک آکر انہیں راستے سے بھٹکاتا تھا۔ میں لگ بھگ چھ سال کا تھا جب ایک استاد نے ’’رانٹس‘‘ اور ’’بریم راچوک‘‘ کے بارے میں بھری جماعت میں خامہ فرمائی کی جس سے میں انتہائی خوفزدہ ہوا۔ آخر میں انھوں نے یہ نوید سنائی کہ جس کسی کو بھی آیت الکرسی یاد ہو تو وہ اس کو دہرا کر ان کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ گھر آتے ہی میں آیت الکرسی کو یاد کرنے میں جت گیا اور اسے ہفتہ بھر میں حفظ کرلیا جس سے یک گونہ اطمینان ہوا۔ چند دن خیر سے گزرے جب کسی نے بتایا کہ اکثر لوگ ان مخلوقات کا سامنا کرتے وقت اپنا سب کچھ حتیٰ کہ نام پتا تک بھول جاتے ہیں جس سے اپنی ہمہ وقت مجبوری کا احساس مزید گہرا ہوگیا۔

نوجوانی کی دہلیز پر آتے آتے ایک نئے خوف نے قبضہ کرلیا۔ عوامی بغاوت کے نتیجے میں پورے جموں و کشمیر کو آزادی کیلئے اٹھنے والی مسلح جدوجہد نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس سے نمٹنے کیلئے پورے خطے کو ایک فوجی چھائونی میں بدل دیا گیا جنہوں نے ’’دہشت گردی‘‘ سے لڑنے کے نام پر ہرکس و ناکس کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اب لوگ ’’رانٹس‘‘ اور ’’بریم راچوک‘‘ کو یکسر بھول کر صرف فوج سے ڈرنے لگے جو دن رات کی تمیز کئے بغیر کسی بھی لمحے کہیں پر بھی ظاہر ہوکر ظلم و جبر کی نئی نئی داستانیں رقم کرنے لگی۔ اس دوران بحیثیت صحافی کئی دور دراز جنگلی علاقوں کا سفر کیا اور بھوت پریت کے بجائے تردد صرف فوج کی طرف سے ہی رہا۔ 1992ء میں میں نے کشمیر کے اسلام آباد ضلع کے گھنے جنگلوں سے جموں کے ڈوڈہ ضلع تک ایک طویل پیدل سفر کیا جس کا مقصود نئی نئی قائم شدہ جہادی تنظیم حرکت الجہاد السلامی کے ذمہ داروں سے ملاقات تھی۔ کچھ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق انہوںنے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کرتے ہوئے اسے نہ صرف تباہ کردیا تھا بلکہ کچھ فوجیوں کو بھی تحویل میں لے لیا تھا۔ گھنے جنگلوں میں قائم حرکت کے ’’مرکز‘‘ میں تنظیم کے امیر نصراللہ منصور لنگڑیال اور ایک فوجی بکاش نرزری سے ملاقات ہوئی جنہیں فوجی ایکشن کے دوران پکڑا گیا تھا۔ دوران سفر کئی دور دراز اور الگ تھلگ بستیوں سے گزر ہوا تو از راہ تجسس میں نے لوگوں سے ’’رانٹس‘‘ اور ’’بریم راچوک‘‘ کے بارے میں استفسار کیا۔ سب نے سنی سنائی باتیں ہی بتائیں مگر کئی لوگ یہ باتیں بھی کرتے نظر آئے کہ شاید بدلتے حالات میں وہ کسی پرامن علاقے کی طرف نقل مکانی کرگئے ہوں۔ ایک نوجوان نے شوخ لہجے میں چہکتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ ’’مجاہدین کی بندوقوں سے ڈرکر بھاگ گئے ہیں‘‘ ،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور ’’سائنسی‘‘ دانشوروں کی معیّت میں رہ کر ان مخلوقات کو توہمات سمجھ کر نظر انداز کرنا سیکھا۔

اب اچانک اسرائیل کے اسپیس ڈائریکٹوریٹ کے سابق سربراہ جنرل حائم اشاد نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی اور امریکی ادارے برسوں سے خلائی مخلوق کے ساتھ نہ صرف رابطے میں ہیں بلکہ امریکی تو ان کے ساتھ مریخ پر ایک مشترکہ پروگرام پر کام بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس کا اعلان کرنا چاہتے تھے مگر انہوں نے خلائی مخلوق کے مشورے پر یہ ارادہ ترک کردیا کیونکہ بقول جنرل اشاد، خلائی مخلوق کا خیال ہے کہ انسان کو ابھی مزید ارتقاکی ضرورت ہے۔ معاملہ کچھ بھی ہو، اسرائیلی جنرل کے انکشاف سے تین اہم باتیں سامنے آئی ہیں۔اول:یہ کہ خلائی مخلوق ہمیں کچھ نہیں سمجھتی۔ دوم:امریکی صدر کتنے ہی تند مزاج اور متکبر مشہور کیوں نہ ہوں، وہ خلائی مخلوق کی سنتے بھی ہیں اور ان کے مشورے پر عمل بھی کرتے ہیں۔ سوم:امریکی خلائی مخلوق کو اہم طاقت اور حقیقت سمجھتے ہوئے ان سے لڑنے کے بجائے ان سے اشتراک کر رہے ہیں۔

اس سے صاف ظاہر ہے کہ مستقبل کا دنیاوی نظام خلائی مخلوق کے اشتراک سے چلے گا اور آئندہ کامیابیوں کا دارومدار ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے میں ہی مضمر ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین