• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بیگانی شادی میں اجنبی لوگوں کے درمیان پکی سی شکل بنا کر بیٹھنے سے زیادہ بورنگ کوئی کام نہیں۔ ویسے تو میں خاصا آدم بیزار قسم کا آدمی ہوں، خواہ مخواہ کسی سے گفتگو کا آغاز نہیں کرتا مگر ایسے میں اگر کوئی خوش اخلاقی سے اُبلتا ہوا میزبان کسی دوسرے مہمان سے تعارف کروا دے تو بات شروع ہو ہی جاتی ہے۔ 

شادی ہو، مرگ ہو، جہاز میں برابر والی نشست کا مسافر ہو، ڈاکٹر کے کلینک میں اپنی باری کا انتظار کرتا ہوا مریض ہو یا یونہی کوئی راہ چلتا اجنبی، آپ کسی بھی موقع پر گفتگو شروع کرکے دیکھیں، تھوڑی دیر بعد آپ کو احساس ہوگا کہ مدِمقابل گفتگو کے نام پر ’’میں، میں، میں‘‘ کی گردان کر رہا ہے۔

 ’’السلام علیکم جناب، آپ کی تعریف؟ جی و علیکم السلام، میرا نام ع غ ہے۔ ماشا اللہ بڑا خوبصورت نام ہے، میرے چھوٹے بیٹے کا نام بھی ع غ ہے، بہت پیارا بچہ ہے، بالکل اپنی ماں پر گیا ہے، اصل میں میری شادی کافی جلدی ہو گئی تھی، اِسی لئے میرے تینوں بچے ماشا اللّٰہ دیکھنے میں میرے جتنے ہی بڑے لگتے ہیں، تینوں کی عمروں میں صرف چار چار ماہ کا فرق ہے۔

جی اب آپ پوچھیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے تو جناب والا بس اسے ایک ریکارڈ ہی سمجھیں، ویسے تو میری کم عمری کی شادی بھی ایک ریکارڈ ہے لیکن خیر جانے دیں، آپ کیا کرتے ہیں؟ 

میں تو سریا امپورٹ کرتا ہوں، کبھی گردن میں فٹ کروانا ہو تو مجھے ضرور یاد کیجئے گا، یہ رہا میرا کارڈ، آپ کو ایک مزے کی بات سناتا ہوں، جب یہ ع غ، یعنی میرا چھوٹا بیٹا پیدا ہونے والا تھا تو میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اِس مرتبہ بچے کا نام میں رکھوں گا اور میں نے نام بھی سوچ لیا، ط ظ، آپ خود بتائیے کتنا خوبصورت نام ہے لیکن وہ نہیں مانی۔

کہنے لگی کہ نام رکھنا ماں کا حق ہے، ع غ پر اَڑ گئی، میں بھی تھوڑی دیر اپنی بات پر قائم رہا، وہ اُس وقت روٹیاں پکا رہی تھی، مذاق میں اُس جیون جوگی نے ہاتھ میں پکڑا ہوا بیلنا میرے سر میں مارا، نہایت مترنم سی آواز نکلی، سو یوں سمجھئے جیسے پیانو کا آخری سُر ہوتا ہے، آج تک اُس کا نشان نہیں گیا، یہ دیکھیں میرے سر پر، ہاتھ لگا کر دیکھیں، یہ جو خوبصورت سا گومڑ نظر آ رہا ہے۔

سری لنکا کے نقشے جیسا، یہ اُسی نیک بخت کی دین ہے، خدا اُسے خوش رکھے، ٹھوکر نیاز بیگ سے پرے اُس کے باپ کی پچاس ایکڑ زمین ہے، انکل ماشا اللہ اب پچاسی برس کے ہو گئے ہیں، میری مسز اُن کی اکلوتی اولاد ہے۔ آپ کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا؟‘‘

میرے دوست الف کا خیال ہے کہ میں خواہ مخواہ لوگوں کا مضحکہ اڑاتا ہوں، اُس کا کہنا ہے کہ ’’یہ لوگ تمہاری طرح کالم نہیں لکھتے، اِن لوگوں کے پاس اپنی ذاتی زندگی کے علاوہ کوئی بات نہیں لہٰذا تم اسے اِن کا کالم ہی سمجھا کرو، بالکل ویسے جیسے تمہیں اپنے کالم کے متعلق یہ غلط فہمی ہے کہ لوگ اُسے دلچسپ سمجھ کر پڑھتے ہیں، اِسی طرح اِن عام لوگوں کا بھی یہی خیال ہے کہ اِن کی زندگی بہت دلچسپ ہے!‘‘

 اِس آخری جملے میں الف نے گویا میرا کلیجہ ہی نکال کر رکھ دیا۔ اگر میرے ہاتھ میں بھی اُس وقت بیلنا ہوتا تو یقیناً میں الف کے سر پر مار کر امریکہ کے نقشے جیسا گومڑ بنا دیتا مگر میں نے یہ ارادہ ملتوی کر دیا کیونکہ اگلے روز ہم نے اکٹھے ایک شادی میں شرکت کرنا تھی۔ 

کورونا کی حفاظتی تدابیر کے پیشِ نظر الف نے نہ صرف ماسک پہنا بلکہ سر پر ہیلمٹ نما شیشے کا ڈھکن بھی چڑھا لیا جو عموماً ڈاکٹر لوگ کورونا وارڈ میں استعمال کرتے ہیں۔ ابھی تو الف اِس بات پر مصر تھا کہ وہ سفید رنگ کا کفن نما لباس پہن کر شادی میں جائے گا مگر میں نے اُس صورت میں ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا۔ 

شادی میں ہماری ملاقات ایک لکھاری سے ہوئی جو ہاتھ میں اپنی کتابوں کا سیٹ لئے گھوم رہا تھا، موصوف نے اپنی کتاب پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ میری نئی کتاب ہے، گزشتہ ماہ ہی مارکیٹ میں آئی ہے اور آپ کو یہ جان کر خوشی اور حیرانی ہوگی کہ اِس قلیل عرصے میں ہی یہ برصغیر پاک و ہند کی سب سے زیادہ بِکنے والی کتابوں کی فہرست میں شامل ہو چکی ہے‘‘۔ 

یہ کہہ کر اُس نے جیب سے روزنامہ ’کالک‘ کا تازہ شمارہ نکالا اور ایک خبر پر انگلی رکھتے ہوئے کہا ’’یہ دیکھیں‘‘۔ الف نے مجھ سے اخبار چھین کر پوری خبر پڑھی اور پھر کہا ’’نوجوان، ایسی کتابیں یوں مفت نہیں بانٹنی چاہئیں، نظر لگ جاتی ہے، اِسے آن لائن بیچو‘‘۔ اُس دن کے بعد سے وہ لکھار ی جیف بیزوس کا پتا تلاش کرتا پھر رہا ہے۔

عام لوگوں کی کیا بات کریں، اچھے خاصے پڑھے لکھے بھی اِسی ’’میں سینڈروم‘‘ کا شکار ہیں۔ سرکاری افسران، خاص طور سے جب وہ ریٹائر ہو جائیں، اپنی بات کا آغاز ہی اِس جملے سے کرتے ہیں کہ While I was posted asاور پھر اُس کے بعد ’آئی‘ کی ایسی گردان شروع کرتے ہیں کہ بندے کی سر ہلاتے ہلاتے گردن تھک جاتی ہے۔

 کچھ دن پہلے ایسے ہی ایک ریٹائر سرکاری افسر سے ملاقات کرنا پڑ گئی، موصوف نے چائے پلانے کے بہانے بٹھا لیا اور اپنی مختلف تعیناتیوں کے قصے سنانے لگے۔ پندرہ منٹ کی نان اسٹاپ یکطرفہ گفتگو میں موصوف نے بلامبالغہ پینتیس مرتبہ ’آئی‘ کا استعمال کیا ہوگا۔ 

ممکن ہے آپ سوچیں کہ اچھا ہے، پندرہ منٹ میں جان چھوٹ گئی مگر ایسا نہیں ہوا، پندرہ منٹ بعد اُنہوں نے محض سانس لینے کی غرض سے توقف کیا تھا اور شفیق الرحمٰن کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق مجھے ہاتھ کے اشارے سے بولنے سے منع کیا تھا کہ ابھی اُن کی بات مکمل نہیں ہوئی۔ 

بہرحال کسی نہ کسی طرح میں اُن کی بزم سے پریشان ہو کر نکل ہی آیا۔اگر آپ بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی گفتگو سے کتنا محظوظ ہوتے ہیں تو اپنی گفتگو میں لفظ ’میں‘ کی گنتی کرکے دیکھیں، حیرت انگیز نتائج نکلیں گے۔

تازہ ترین