• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کا خود اپنے آپ سے پیار کرنا تو فطری جذبہ ہے مگر جب معاملہ فریفتگی سے ہوتا ہوا محویت اور خودپرستی کی شکل اختیار کرلے اور انسان اپنی ہر ادا پر سو جاں سے فدا ہونے لگے تو اِس نفسیاتی عارضے کو ’’نرگسیت‘‘ کہا جاتا ہے۔

اِس بیماری سے متعلق قدیم یونانی کہانی بیان کی جاتی ہے۔ اِس دیو مالائی کہانی کے کئی ورژن ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ زیوس دیوتا آسمان پر راج کرتا تھا، وہ حسن پرست تھا اور اُسے قدرتی مناظر بےحد پسند تھے۔ ایک روز اُس کا سامنا خوبصورت پری سے ہوا۔ وہ پری باتیں کرتی رہتی اور زیوس کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔ اُس کی بیوی ہیرا کو زیوس کی یہ عادت پسند نہ آئی۔

اُس نے خوبصورت پری کو بددعا دی تو وہ محض بازگشت بن کر رہ گئی۔ اِسی مناسبت سے اِس دلکش پری کو ’’ایکو‘‘ کا نام دیا گیا۔ وہ جنگل میں بھٹکتی پھرتی تھی۔ ایک دن اُسے شکار کے لئے آیا خوبصورت شہزادہ ’’نارسیس‘‘ نظر آیا تو وہ اُس کے عشق میں مبتلا ہو گئی اور بےاختیار اُس کے پیچھے چلنے لگی۔ شہزادے کو تعاقب کئے جانے کا احساس ہوا تو اُس نے چلا کر کہا، کون ہو تم؟ ’’ایکو‘‘ نے بھیس بدل کر اُسے گلے لگا لیا اور اپنے جذبات و احساسات سے آگاہ کیا۔ شہزادہ ’’نارسیس‘‘ نے اُسے ایک طرف دھکیل دیا اور اُس کی محبت دھتکارتے ہوئے کہا دور ہو جائو مجھ سے۔ پری کا دل ٹوٹ گیا۔

اُس نے بددعا دیتے ہوئے کہا، خدا کرے تم اپنی ذات کے اسیر ہو جائو، تمہیں اپنے آپ سے پیار ہو جائے اور اِس محبت کو پانے کا کوئی راستہ نہ مل پائے۔ انتقام کا دیوتا خوبصورت پری ’’ایکو‘‘ کی آہ سن کر جلال میں آگیا اور شہزادہ ’’نارسیس‘‘ کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک روز جب وہ شکار کے دوران پیاسا تھا اور پانی کی تلاش میں پھر رہا تھا تو اُسے دریا میں اپنا عکس دکھائی دیا۔ انتقام کے دیوتا نے اسے ایسا اُکسایا اور لُبھایا کہ ’’نارسیس‘‘ خود ہی محب اور خود ہی محبوب ہو گیا۔ وہ خود پرستی کا شکار ہو گیا، اُسے اپنے ہی عکس سے پیار ہو گیا۔

’’نارسیس‘‘ پانی میں دکھائی دے رہے اپنی ہی عکس کے خیالوں میں کھویا رہتا۔ وہ کھانا، پینا بھول گیا اور وہیں دریا کنارے بیٹھے بیٹھے اُس کی موت واقع ہو گئی۔ ’’ایکو‘‘ کو خبر ہوئی تو وہ اُس کی طرف لپکی مگر وہاں ’’نارسیس‘‘ نہ تھا بلکہ نرگس کا ایک پھول کھلا ہوا تھا۔

دنیا بھر کے ماہرینِ نفسیات اِس بات پر متفق ہیں کہ ’’نرگسیت‘‘ کی 9علامات ہیں، اگر کسی شخص میں کم از کم 5نشانیاں پائی جاتی ہیں تو یہ مان لینا چاہئے کہ وہ شخص اِس نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہے۔

پہلی علامت ہے اپنی افضلیت کے بےپایاں احساس میں مبتلا ہونا۔ مثلاً میں اسمارٹ ہوں، میرے جیسا کوئی نہیں، مجھے کسی چیز کی کمی نہیں، میں کسی کا محتاج نہیں۔ میں سب سے اعلیٰ و برتر ہوں۔ دوسروں سے افضل ہونے کا مغالطہ جسے احساس برتری کہا جاتا ہے اُس کے بارے میں ماہرینِ نفسیات واضح کر چکے ہیں کہ احساسِ برتری بھی دراصل احساسِ کمتری کی ایک شکل ہے۔ اِس غلط فہمی کی کوکھ سے ایک اور مغالطہ جنم لیتا ہے جو ماہرین کے خیال میں ’’نرگسیت‘‘ کی دوسری بڑی علامت ہے اور وہ ہے ہر چیز پر اپنا حق جتلانا۔

ایسے افراد لڑکپن میں اِس بات پر اُلجھتے ہیں کہ گھر میں اُنہیں سب سے زیادہ اہمیت کیوں نہیں دی جاتی۔ باقی سب جائیں بھاڑ میں، میرا ہر حق فائق اور مقدم ہے۔ وہ خود کو ہر منصب کا حقدار اور ہر عہدے کا اہل سمجھتے ہیں اور اُس کے حصول کے لئے جائز یا ناجائز کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے کیونکہ اُن کی دانست میں جس چیز پر حق ہے، اُسے صحیح یا غلط طریقے سے حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ ’’نرگسیت‘‘ کی تیسری علامت یہ ہے کہ جب یہ خود پسند لوگ کوئی عہدہ، منصب یا اختیار حاصل کر لیتے ہیں تو کامیابی اور طاقت سے متعلق غیرحقیقت پسندانہ رویے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص چپڑاسی یا قاصد رکھے جانے کے قابل نہیں۔

کسی کے دستِ شفقت کے باعث یا پھر کسی اَنہونی کے نتیجے میں اُسے دفتر میں چیف ایگزیکٹو افسر لگا دیا گیا ہے تو وہ اپنے اختیارات اور طاقت سے متعلق گھمنڈ میں مبتلا ہو جائے گا۔ ’’نرگسیت‘‘ کی چوتھی نشانی یہ ہے کہ ایسے لوگ چاہے اور سراہے جانے کی بےپناہ احتیاج میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اُنہیں تعریف و توصیف، خوشامد، تملق اور چاپلوسی نہ صرف پسند آتی ہے بلکہ اُنہیں اِس کی لت پڑ جاتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر پل، ہر قدم پر اُن کی مدح سرائی کی جائے۔ پانچویں علامت یہ ہے کہ وہ تعلق اور رشتہ نبھانے کے قائل نہیں ہوتے۔ انتہا درجے کے خود غرض ہوتے ہیں۔

اُن کے نزدیک کسی رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ گاہے خیال آتا ہے ’’نرگسیت‘‘ نسوانی نام ہے اور اِس سے صنفی امتیاز کی بو آتی ہے۔ یہ عارضہ تو خواتین و حضرات میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔ اگر اِس صطلاح کا نام تبدیل کرکے کوئی مردانہ نام رکھنا مقصود ہوتو آپ کیا تجویز کریں گے؟

تازہ ترین