• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کا انسان یہ سوچتا ہے کہ اُس کے کندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ زمین پہ کسی بہت بڑے دُم دار ستارے کے آگرنے کا خطرہ ہو یا برف پگھلنے سے براعظموں کے ڈوب جانے کا ڈر، انسان کو ایک نجات دہندہ کا کردار ادا کرنا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کو ابد الآباد تک باقی رہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنجہانی اسٹیون ہاکنگ نے یہ کہا تھا کہ زندہ رہنا ہے تو سو برس کے اندر انسان کو خلا میں متبادل ٹھکانے تلاش کر لینا چاہئیں (کہ زمین تباہ ہو تو پھر بھی انسانی نسل باقی رہے)۔ آدمی نے اب ایسی دوربینیں نصب کر رکھی ہیں، جن سے وہ زمین کے قریب سے گزرنے والے ہر بڑے شہابِ ثاقب اور دُم دار ستارے پہ نظر رکھتا ہے۔ ہر بڑے آتش فشاں کا وہ معائنہ کر رہا ہے۔ زلزلوں کا مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اِسی انسان نے ہزاروں جوہری ہتھیار نصب کر رکھے ہیں۔ دوسری طرف یہی انسان کوئلہ، تیل اور گیس جلا کر کرّہ ار ض کا درجہ حرارت بڑھا چکا ہے۔ مغربی انٹارکٹیکا سمیت ہر جگہ برف کے ذخائر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ کتنا بڑا تضاد ہے یہ، کتنا بڑا تضاد۔ جزائر اور ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔ انڈونیشیا اور فلپائن جیسے بہت سے ممالک جزائر ہی پر آباد ہیں۔ اور کراچی جیسے شہر بھی۔ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا بھر کی آب و ہوا بدلتی جار ہی ہے۔ قدرت کی طرف سے زمین کی فضا میں گیسوں کا غلاف بڑے توازن سے پیدا کیا گیا تھا۔ اب اِن گیسوں کا تناسب بگڑ رہا ہے۔ جیسے جیسے ایجادات ہوتی چلی گئیں، انسان کرّہ ارض کو زیادہ سے زیادہ متاثر کرنے لگا۔ اِن میں سب سے زیادہ اہم شاید آگ کی دریافت تھی۔ پتھر کے قدیم ترین اوزار ایتھوپیا سے ملے ہیں، 26لاکھ سال قدیم۔ یہ دوسرے جانوروں پہ انسانی برتری کا آغاز تھا۔ اٹھارہ لاکھ سال پہلے آدمی نے آگ دریافت کی۔ یہی آگ اب گھروں، کارخانوں اور گاڑی کے انجن میں دہکتی ہے۔ ایک لاکھ سال پہلے فلسطین میں مردے دفنانے کا آغاز ہوا۔

36ہزار سال پرانے قدیم ترین انسانی لباس کا سراغ ملا ہے۔ مردے دفنانا، لباس پہننا، اِس سب سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ مذہب نازل ہو چکا تھا۔ اُس کے بعد آدمی تیزی سے آگے بڑھتا رہا۔ 28ہزار سال پہلے اُس نے رسّی بنانا سیکھی۔ 16ہزار سال پہلے چین میں برتن استعمال ہو رہے تھے۔ بارہ ہزار سال پہلے میسو پوٹیمیا(موجودہ عراق) میں زراعت کا آغاز ہوا۔ دس ہزار سال پہلے ہمیں مٹی کی اینٹیں ملتی ہیں۔ یہی وہ زمانہ ہے، جب لبنان، شام اور دجلہ و فرات کے درمیان بڑے شہر بسنے لگتے ہیں۔ پانچ ہزار قبلِ مسیح میں آدمی تحریر لکھنے لگتا ہے۔ وہ چپو بناتا اور سمندری تسخیر کا آغاز کرتا ہے۔ 3500قبل مسیح میں آگ کے بعد کرّہ ارض پہ دوسری بڑی انسانی ایجاد، پہیہ منظرِ عام پر آتا ہے۔ اُس کے ساتھ ہی ہم نے تانبہ استعمال کرنا سیکھا۔

1500قبلِ مسیح میں چین اور لبنان میں سکّے رائج ہوئے۔ یوں کاروبار اور تجارت نے ایک نئی شکل اختیار کی۔ 1200قبل مسیح میں مصر میں تلوار ایجاد ہوئی تو انسانی عسکری تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔ 750قبل مسیح میں لینز ایجاد ہوا تو کائنات میں انسانی تحقیق کا ایک نیاباب شروع ہوا۔ 600قبل مسیح میں ہمیں بحری جنگی جہازملتے ہیں۔ جہاں تک توانائی کا تعلق ہے، 650قبل مسیح میں ہوائی چکی ایجاد ہو چکی تھی۔ انسان توانائی کی ایک شکل کو دوسری، مفید صورت میں بدلنے لگا۔ پانچ سو قبل مسیح میں چینی لوہے سے عمدہ اوزار تیار کر رہے تھے۔ دوسو قبل مسیح میں کاغذ ایجاد ہوا۔ علمی کاوشیں پھلنے پھولنے لگیں۔

یہ چوتھی صدی عیسوی تھی، پہلی بار جب تیل کے کنویں کھودے گئے۔ نویں صدی میں بارود ایجاد ہواتو انسانی جنگی تاریخ میں یہ ایک او ر فیصلہ کن موڑ تھا۔ اِسی طرح تیرہویں صدی میں راکٹ ایک اور بڑی ایجاد تھی۔ پندرھویں صدی میں پرنٹنگ پریس علمی تاریخ کی سب سے بڑی ایجاد تھی۔ سترہویں صدی میں گیلی لیو گیلی لی نے دور بین ایجاد کی تو یہ ایک اور موڑ تھا۔ اٹھارہویں صدی میں فریج ایجاد ہوا۔ آدمی خوراک ذخیرہ کرنے لگا۔ اسی وقت بھاپ کا پہلا انجن بنا۔ آدمی تیزی سے سفر کرنے لگا۔ عالمی سیاست اور جنگی صلاحیت میں یہ ایک بڑی پیش رفت تھی۔ اسی دوران ٹیلی گراف ایجاد ہو ا تو ڈیٹا برق رفتاری سے ایک سے دوسری جگہ منتقل ہونے لگا، آج انٹرنیٹ کی شکل میں ہم جس کی سب سے تیز شکل دیکھتے ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز میں بیٹری ایجاد ہوئی تو ہم توانائی ذخیرہ کرنے لگے۔پھر جدید انجن ایجاد ہوا، آج جس میں تیل اور گیس جلتے اور کرّہ ارض کا درجہ حرارت بڑھا رہے ہیں۔یہ انسان کی ایک خام خیالی ہے کہ وہ کرّہ ارض کو تباہی سے بچا لے گا۔ انسانی خام خیالی کی انتہا دیکھیے، وہ سوچتا ہے کہ میں لافانی ہوں۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھتا گھٹتا رہا ہے۔عظیم آتش فشاں پھٹتے رہے ہیں۔ برفانی دور گزرتے رہے ہیں۔ آسمان سے دم دار ستارے گرتے رہے ہیں۔ پانچ بڑے ہلاکت خیز دور (Mass Extinctions) گزرے ہیں، جب کرّہ ارض پہ زیادہ تر جاندار نسلیں ہمیشہ کیلئے مٹ گئیں۔ بمشکل تمام زندگی ختم ہوتے ہوتے بچی۔ یہ وہ ادوار تھے، آدمی جب گھٹنوں چلتا تھا۔ انسان نے تین لاکھ سال پہلے ہوش کی آنکھ کھولی ۔کرّہ ارض اپنی کوکھ میں ساڑھے تین ارب سال سے زندگی پال رہی ہے۔ یہ بڑی ذمہ داری کا احساس ایک مصنوعی تفاخر ہے۔ انسان مجبورِ محض ہے۔ اِس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ اِس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب موت آتی ہے تو آئن اسٹائن اور اسٹیون ہاکنگ جیسے عظیم سائنسدان اسی بے بسی سے مر جاتے ہیں، جس طرح ایک بھینس مرتی ہے۔

تازہ ترین