لندن(پی اے )سائنسدانوں نے اس خدشے کے سامنے آنے کے بعد کہ کورونا وائرس کی نئی شکل بچوں پر جلد اثر انداز ہوسکتی ہے ،فوری طور پر اس حوالے سے تحقیق شروع کردی ہے ،سائنسدانوں کا کہناہے کہ اگر یہ خیال صحیح ثابت ہواتو اس مرض کاپھیلائو بہت تیزی سے ہونے کاخدشہ ہے۔کورونا کی نئی شکل کا بچوں پر تیزی سے اثر کا دعویٰ حکومت کے New and Emerging Respiratory Virus Threats advisory group (Nervtag) کی جانب سے کیاگیا ہے۔پیر کو بورس جانسن نے کہا کہ اگر ممکن ہوا تو وہ جنوری سے اسکول کھولنا چاہتے ہیں ،اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ وائرس کی نئی شکل بچوں کی صحت کیلئے زبردست خطرہ ہے ۔ قبل ازیں یہ پتہ چلاتھا کہ کورونا وائرس کاجرثومہ بالغان کے مقابلے میں بچوںپر مشکل سے اثر کرتاہے ،اس سلسلے میں ایک دلیل یہ دی جاتی رہی ہے کہ بچے بہت کم the ACE2 receptorہوتے ہیں وائرس جس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتاہے ،انگلینڈ کے اسکولوں میں انفیکشن کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایاگیاتھا کہ اسکولوں کی بندش سے وائرس کے پھیلائو پر عارضی اثرات ہی مرتب ہوئے ، Nervtag اور امپیریل کالج لندن کے پروفیسر وینڈی بارکلے کا کہناہے کہ وائرس انسانی جسم کے داخلہ راستوں ہی سے جسم میں داخل ہونے کو زیادہ آسان تصور کرتا ہےان کاکہناہے کہ اس سے بچوں کو زیادہ بہتر صورت حال ملتی ہے کیونکہ یہ وائرس بچوں میں بہت ہی کم داخل ہوتاہے۔اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ بچے بھی بالغان کی طرح ہی اس وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں وائرس کی نئی قسم کے پھیلائو کو سمجھنے کیلئے بجلی کی سی تیزی سے کام ہورہا ہے لیکن ابھی تک غیر یقینی کی صورت حال موجود ہے۔اب یہ خیال کیا جارہاہے کہ وائرس کی نئی قسم 50سے70 فیصد تک زیادہ تیزی کے ساتھ لوگوں کو شکار بناتاہے۔ انفیکشن سے پھیلنے والی عالمی بیماریوں کے تجزیاتی سینٹرایم آرسی کے پروفیسر نیل فرگوسن کے مطابق ،اس وائرس کے تعلق کے حوالے سے اطلاعات کو ثابت کرنے کیلئے ابھی تحقیق ہونا باقی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگرنئے وائرس کے بچوںپر تیزی سے اثر انداز ہونے کے خدشات درست ثابت ہوئے تو پھر بڑی تعداد میں لوگ اس سے متاثر ہوسکتے ہیں ۔لیکن لیور پول یونیورسٹی کے پروفیسر ،جولین ہسفوکس نے بی بی سی کو بتا یا کہ ابھی تک اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں جس سے ظاہر ہوکہ یہ بچوں کو زیادہ نقصان پہنچاتار ہدستور تحقیق طلب ہے۔انھوں نے کہا کہ سائنسداں کرسمس کے بعد اس پر غور کریں گے،سخت پابندیوں کے دوران وائرس دوسروں تک پھیلانے کی شرح کم وبیش 1.2 ہے جس کے معنی یہ ہیںوبا کی دوسری شکل تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کورونا کی نئی قسم سے بچوں کو کیا خطرہ ہے؟ سائنسدان اس وقت یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی نئی قسم بچوں پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ نئی قسم بچوں میں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے، تو اس کے بڑے پیمانے پر تیزی سے پھیلانے کا جواز سامنے آ سکتا ہے۔ پیر کو برطانوی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اگر ممکن ہوا تو وہ جنوری میں سکول کھول دینا چاہتے ہیں۔ تاہم اب تک یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ اس نئی قسم سے بچوں کو کوئی براہ راست خطرہ ہے۔ دنیا بھر میں بچے کووڈ 19 وائرس سے زیادہ تر محفوظ رہے تھے اور یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وائرس بچوں پر اُس طرح اثر انداز نہیں ہوتا جیسے بڑوں پر۔ لیکن اگر وائرس کی نئی شکل ان کے ذریعے بھی پھیل سکتی ہے تو سکولوں اور دیگر تدریسی اداروں کو کھولنے کے حوالے سے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جن راستوں سے وائرس جسم پر حملہ آور ہوتا ہے (ACE2 ریسیپٹر) وہ بچوں میں کم پائے جاتے ہیں۔ لندن کے امپیریئل کالج سے منسلک پروفیسر وینڈی بارکلے کے مطابق کووڈ 19 کی نئی شکل کے لیے ایسے راستوں سے گزر کر جسم میں داخل ہونا آسان ہوگیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر وائرس کی نئی شکل بچوں کے ذریعے دوسروں میں منتقل ہو سکتی ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ پہلے سے زیادہ بچوں کو متاثر بھی کرے۔ برطانیہ سمیت دنیا بھر میں سائنسدان اور محقق وائرس کی نئی شکل کے بارے میں مزید جاننے کے لیے بہت تیزی سے کام کر رہے ہیں اور اب تک یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ کووڈ 19 کے عام وائرس سے 50 سے 70 فیصد زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔