• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات دو بجے فون کی گھنٹی سے میری آنکھ کھل چکی تھی ، خیال آیا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرورہوگی۔ کوئی غیر مانوس نمبر تھا ، فون اٹھایا تو دوسری جانب کسی لڑکی کی لڑکھڑاتی ہوئی آواز سنائی دی، میرے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہ لڑکی پاکستانی تھی اور اس وقت کسی مشکل میں پھنسی ہوئی تھی اوریہی ہوا میرے ہیلو کہنے کی دیر تھی کہ لڑکی نے اپنی سسکی بھری آواز میں بولنا شروع کیا ،سر آپ سے میری ملاقات اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ہوئی تھی، میں وہاں ڈیوٹی سروس اسسٹنٹ تھی ،آپ نے مجھے اپنا نمبر بھی دیا تھا۔ میں کئی دنوں سے آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہی تھی اور شاید اگر آج آپ میرا فون نہ اٹھاتے تو کل میں خود کشی کرلیتی۔ خاتون کے یہ الفاظ سنتے ہی میری رہی سہی نیند بھی اڑ گئی ،میں نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا محترمہ مسئلہ کیا ہے مجھے بتائیں میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟ اس نے کہا کہ سر مجھے آپ کی مددکی اشد ضرورت ہے، مجھے کسی بھی طرح یہاں سے نکالیں میں یہاں بری طرح پھنس چکی ہوں ،یہ شخص جس کی گارنٹی پر میں جاپان آئی ہوں میرا بری طرح استحصال کررہا ہے ،اس نے مجھے جانوروں کی طرح رکھا ہوا ہے ،یہ اپنے دودوستوں کے لیے بھی مجھے پیش کرنا چاہتا ہے میرے مسلسل انکار پرمیرے ساتھ انسانوں سے بھی برا سلوک کر رہا ہے ، کبھی کہتا ہے کہ مجھ سے نکاح کرلو اور جہاں میں کہوں وہاں جائو جس کو میں کہوں اسے خوش کرو،میرے انکار پر مجھ پر بہت تشدد بھی کیا ہے۔ جس پر میں نے کہا بی بی یہ جاپان ہے، اگر آپ کے ساتھ کوئی اتنی زیادتی کررہا ہے تو آپ فوری طور پر پولیس کواطلاع دیں ورنہ مجھے بتائیں میں ابھی پولیس کو اطلاع کرکے اسے بھی گرفتار کراتا ہوں اور آپ کو بھی وہاں سے نکلوادیتا ہوں ، میری اس بات پر لڑکی نے بتایا کہ اگر میں یہاں اس کے ساتھ کچھ کرتی ہوں تو بھی گھر میرا ہی برباد ہوگا کیونکہ جس شخص نے مجھے جاپان بلوایا ہے وہ میرا سگا بہنوئی ہے، وہ روز میری بہن کو طلاق دینے کی دھمکیاں دیتا ہے، اس کے چار چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیںپاکستان میں جبکہ میرے والد انتقال کرچکے ہیں۔ گھر میں والدہ ، دو چھوٹی بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے جن کی کفالت کی ذمہ داری میری ہے ،بڑی بہن کی شادی ہوچکی ہے، میں پاکستان سے دبئی میں سیٹ ہوچکی تھی وہاں میں ایک ہوٹل میں ملازمت کررہی تھی لیکن اس نے مجھے جاپان بلوایا کہ یہاں سیٹ کروادوں گا۔ میں بھی زیادہ آمدنی کے لالچ میں اس کے بہکاوے میں آگئی اور میرے یہاں آنے کے بعدسے ہی اِس نے میری زندگی کو جہنم بنادیا ہے، مجھے جاپان آئے ہوئے ڈھائی ماہ ہوچکے ہیں، پندرہ دن کا ویزہ ابھی باقی ہے ، جاپان میں وہ اپنے دو کمرے کے اپارٹمنٹ میں چار دوستوں کے ساتھ رہتا ہے ،کسی فیکٹری میں ملازمت کرتا ہے اور مجھے بھی اسی اپارٹمنٹ میں کچن میں سونے کے لیے جگہ دی ہوئی ہے ، میں نے بڑی مشکل سے اب تک اپنی عزت بچائی ہوئی ہے لیکن لگتا ہے کہ کسی بھی وقت وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ آپ کا نمبر تھا امید تھی کہ آپ سے درخواست کرکے کہیں ملازمت حاصل کرلوں گی لیکن جاپان میں رہنا اپنی بہن اور گھر والوں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے اس لیے واپس دبئی بھی چلی جائوں تو زندگی کی گاڑی دوبارہ شروع کرسکتی ہوں ، لیکن نہ واپسی کا ٹکٹ ہے اور نہ ہی پیسے ، جتنی دیر میں اس پاکستانی لڑکی نے اپنی دکھ بھری داستان مجھے سنائی اتنی دیر تک میں فیصلہ کرچکا تھا کہ ہر حال میں اس مظلوم لڑکی کی مدد کرنی ہے ،میں نے لڑکی سے اس کے اسٹیشن کا نام پوچھا جو ٹوکیو کے نزدیکی علاقے چیبا کین کے پاس تھا، میں نے اسے کہا کہ آپ بالکل نہ گھبرائیں آپ میری بہن کی طرح ہیں اپنے آپ کو بالکل محفوظ سمجھیں اور صبح گیارہ بجے قریبی ریلوے اسٹیشن کے پاس پہنچ جائیں جہاں ایک پاکستانی دوست اور ان کی اہلیہ اپنی گاڑی میں آپ کے منتظر ہونگے، میں نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے فون بند کیا ، میں رات بھر سو نہ سکا، اگلی صبح چیبا کین میں مقیم ایک قریبی دوست کو واقعہ سنایا اس سے درخواست کی کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اس لڑکی کو وہاں سے لائو، چند دن اپنے پاس رکھو۔ میں اس کا دبئی کا ٹکٹ کراتا ہوں، اسے باحفاظت دبئی روانہ کرنا ہے ،اگلی صبح گیارہ بجے وہ مظلوم لڑکی انتہائی برے حال میں میرے دوست اور اس کی اہلیہ کے ساتھ تھی ، چہرہ مرجھایا ہوا ، میلے کچیلے کپڑےتھے ، وہ چیبا میں میرے دوست کے مہمانوں کے لیے مخصوص فلیٹ میں کئی دن ٹھہری ، میں نے ایک مناسب رقم اس کے لیے روانہ کی تاکہ نئے کپڑے خریدے جاسکیں ، اس کا ٹکٹ کرایا ، کچھ تحفے تحائف کے ساتھ ایک ہفتے بعد اسے دبئی کے لیے رخصت کیا،جاپان سے روانگی کے وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے نہ جانے وہ خوشی کے آنسو تھے یا پردیس میں دیئے جانے والے اپنوں کے دکھ کے؟ آج مجھے اپنی پاکستانی بہن اس لیے یاد آئی کہ اس نے مجھے دبئی سے اپنی شادی کی تصویر اس پیغام کے ساتھ روانہ کی ہے کہ بھائی اس دن آپ سے رابطہ نہ ہوتا تو میں آج یہ دن نہ دیکھ پاتی۔ میرا دوست عابد حسین مجھے یہ واقعہ سناتے ہوئے خود بھی آبدیدہ ہوگیا تھا، واقعی پردیس سب کیلئے پھولوں کا بستر نہیں بلکہ بہت سوں کیلئے کانٹوں کی سیج بھی ثابت ہوتا ہے۔

تازہ ترین