• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک جمہوری ریاست کیلئے جن ریاستی اداروں کو مضبوط ہونا چاہئے، وہ بوجوہ مضبوط نہیں ہو سکے یا انہیں مضبوط نہیں ہونے دیا گیا ۔ ان میں مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور احتساب کے ادارے شامل ہیں۔ ان میں سے عدلیہ چند سالوں سے اپنے آپ کو منوانے والا کردار (Assertive Role) ادا کر رہی ہے۔ عدلیہ کے بعض فیصلوں میں نہ صرف اداروں کی خراب کاکردگی پر تنقید کی گئی ہے بلکہ ان اداروں کو یہ حوصلہ بھی دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے آئینی اختیارات استعمال کریں اور اپنی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے اپنے آپ کو مضبوط بنائیں۔ کیا عدلیہ کے اس قصد سے ادارے مضبوط ہونے کا راستہ نکل سکتا ہے اور پاکستان کے ایک حقیقی جمہوری ریاست بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے ؟ عدلیہ کے حالیہ فیصلوں کے تناظر میں آج کا یہ ایک اہم سوال ہے۔

قیام پاکستان کے وقت ادارے کسی حد تک موجود اور مضبوط تھے۔ یہ ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرتے تھے لیکن قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ہی اداروں کو کمزور کرنے کے منصوبوں پر کام شروع کر دیا گیا۔ اس میں کچھ داخلی اور خارجی حلقوں کا اشتراک تھا۔ سیاسی جماعتوں پر سب سے پہلا وار کیا گیا اور اس کے لئے احتساب کا ہتھیار استعمال کیا گیا کیونکہ مذکورہ منصوبوں کے خلاف مزاحمت سیاسی جماعتیں ہی کر سکتی تھیں۔ نہ صرف سیاسی جماعتیں کمزور کی گئیں بلکہ احتساب کا ادارہ بھی نہ بن سکا۔ پھر بہت جلد یہ وقت بھی آیا کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو بلا کر خواجہ ناظم الدین کی جگہ وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے جو نئی کابینہ تشکیل دی، اسے ’’ منسٹری آف ٹیلنٹس ‘‘ کا نام دیا گیا۔ پاک فوج کے کمانڈر ان چیف محمد ایوب خان کو وزیر دفاع اور میجر جنرل اسکندر مرزا کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جان فوسٹر ڈلس نے پاکستانی کابینہ میں ان تقرریوں کو سراہا اور پاکستان کو ایشیاء کا دفاعی مورچہ یا فصیل قرار دیا۔ امریکہ کا یہ دفاعی مورچہ جلد ہی ایک سیکورٹی اسٹیٹ بن گیا اور امریکہ کے بڑے دفاعی معاہدے سیٹو اور سینٹو کا رکن بن گیا۔ اس کے بعد پاکستان میں کوئی ادارہ مضبوط نہ ہو سکا، ابتدائی دنوں میں ہی چیف جسٹس منیر نے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کےتحت فیصلے دیے۔ اس طرح ملک میں اداروں کی بجائے جاگیرداروں، سرمایہ داروں، بیورو کریسی اور فوج کی حکمرانی قائم ہو گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اقتدار کے دیگر فریق بھی کمزور ہوتے گئے۔

1960 ءاور 1970 ءکے عشرے میں دنیا بھر میں آزادی اور جمہوریت کی تحریکوں نے پاکستان میں بھی سیاسی جماعتوں کو پنپنے کے حالات مہیا کئے اور طاقتور سیاسی جماعتیں ابھر کر سامنے آئیں۔ انہوںنے 1973کا دستور دے کر پھر سے اداروںکو مضبوط بنانے کی آئینی بنیادیں فراہم کیں۔ 1980 کے عشرے میں دنیا بھر میں سیاسی تحریکیں کمزور ہوئیں اور پاکستان میں پھر سے اداروں کو کمزور کرنے کے منصوبوں پر عمل کرنے کے حالات بن گئے۔ یہ اور بات ہے کہ ہماری مقننہ نے 18ویں ترمیم بھی منظور کی لیکن حالیہ دنوں میں مقننہ ( پارلیمنٹ ) نے کچھ ایسی قانون سازی کی، جس سے اس کے انتہائی کمزور ہونے کا تاثر مضبوط ہوا۔

جہاں تک انتظامیہ کا تعلق ہے تو1970تک بیوروکریسی مضبوط تھی اور انتہائی با صلاحیت تھی لیکن ایوب خان نے 303اور یحییٰ خان اور بعد میں بھٹو نے بیوروکریسی کا نمایاںکردار ختم کر دیااور کرپشن اور اقرباء پروری کی بنیاد ڈالی۔ یہ بطور ادارہ شدید داخلی بحرانوں کا شکار ہے۔ سول سروسز کے لوگوں کا واحد مقصد اپنی من پسند پوسٹنگ لینا رہ گیا ہے۔ وزارتوں اور محکموں میں سسٹم بنانے پر کسی کی توجہ نہیں ہوتی، سول بیورو کریسی کی کارکردگی عدالتوں کے ریمارکس سے ظاہر ہوتی ہے۔ جہاں تک احتساب کے ادارے کا تعلق ہے، اسے تو قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی تباہ کر دیا گیا۔ ایبڈو اور پروڈا سے لے کر موجودہ متنازع احتساب آرڈی ننس جیسے قوانین نے اسے قابل اعتماد ادارہ بننے ہی نہیں دیا۔

اس وقت ساری امیدیںاعلیٰ عدلیہ سے ہیں۔ یہ امیدیں بھی عدلیہ کے گزشتہ چند سالوں کے کردار کی وجہ سے وابستہ ہوئی ہیں۔ عدلیہ وہ فیصلے بھی کر رہی ہے ،جو قبل ازیں تصور بھی نہیں کئے جا سکتے تھے۔ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار کی سربراہی میں سپریم کورٹ، جناب جسٹس احمد علی ایم شیخ کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ اور جناب جسٹس اطہر امن اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور اعلیٰ عدالت کے جج حضرات بہت محنت اور اچھی طرح کام کر رہے ہیں۔ اعلیٰ عدالت کے سارے جج حضرات عدلیہ کی نئی تاریخ بنا رہے ہیں۔ اس میں سپریم کورٹ نے زمینوں پر قبضے، الاٹمنٹ، ریونیو، KDA,KMCاور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اورکنٹونمنٹ میں تجاوزات پر Plea Bargainکرنے والوں کو دوبارہ Jobپر رکھنے، ضمانت جیسے معاملے میں بڑے فیصلے، NABکے بارے میں بہت Tallفیصلے کئے ہیں جن سے پاکستانی قوم میں عدلیہ پر اعتماد پیدا ہوا ہے اور وہ عدلیہ کے لئے دعاگو ہے۔ ان کے بعض فیصلے بہت زیادہ اہم ہیں۔ ان فیصلوں میں عدلیہ کو مشکلات کا بھی سامنا ہوتا ہو گا لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرنے سے متعلق عدلیہ اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ ماضی میں بینچ پر تنقید ہوتی تھی کہ بینچ عوامی مفاد میں فیصلے نہیں کر رہی لیکن پچھلے کچھ سالوں سے وہ لوگ بھی بینچ یعنی عدلیہ کی تعریف کر رہے ہیں، جو پہلے تنقید کیاکرتے تھے۔ کیونکہ اگر عدالتیں اداروں کو یہ حکم دیتی ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق وہ کام کرکے دیں، جو انہیں کرنا چاہئے تھا تو یہ نہ تو مداخلت اور نہ ہی حدود سے تجاوز ہے۔ میری دانست میں عدالتوں کے یہ فیصلے اداروں کو مضبوط بننے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اس وقت عدلیہ ہماری امید اور ہمارا فخر ہے۔

تازہ ترین