• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ پختونخوا میں ایک مندر پر حملہ کیا گیا ہے،یہ امر قابل ِ غور ہےکہ ایک طرف سکھ برادری کی عبادت گاہیں سرکاری خرچ پر تعمیر کی جارہی ہیں اور دوسری طرف ہندوئوں کی عبادت گاہ کو ایک ایسے صوبے میں نشانہ بنایا گیا جو پہلے ہی انتہا پسندی کا بہت بھاری خراج ادا کر چکا ہے۔ پھر اس مشقِ ستم کیلئے ’’کرک‘ کےاُس علاقے‘کا انتخاب کیا گیا جو دہشت کے شیطانی طوفان میں بھی بلائوںسے محفوظ رہا۔ کرک پختونخوا کا سب سے پُرامن ضلع ہےاور یہاں شرحِ خواندگی 90فیصد ہے۔ یہاں صرف خٹک آباد ہیں، دہشت گردی کا وہ دور جس نے پختونخوا کے ہر در وبام کو جنونیت سے آلودہ کئے رکھا، یہ کرک ہی تھا جہاں ان کے ناپاک عزائم پنپ نہ سکے، حقیقت تو یہ ہےکہ پورا خٹک نامہ کرک تا میانوالی، کوہاٹ تا جنڈ، اٹک و نوشہرہ جہاں جہاں خٹک آباد ہیں، وہاں انتہا پسندوں کو ٹھکانے بنانے نہیں دیے گئے۔ پھر ’’ٹیری‘‘ جہاں مندر کو جلانے کا واقعہ پیش آیا وہ تو اِس قدر شائستہ لوگوں کا مسکن ہے کہ اطراف کے علاقے گاہے گاہے ذاتی عداوتوں میں گرفتار ہو جاتےہیں لیکن ٹیری کے لوگ دشمنی کے نام تک سے آشنا نہیں۔ یہاں کی نوابی بھی مثالی تھی۔ دیگر نوابین کے برعکس ٹیری نواب نے تعلیم، ترقی اور تعمیر کی شاندار خدمات انجام دیں، ٹیری کو خوشحال خان خٹک کے پڑدادا ملک اکوڑ خان نے آباد کیا تھا اور نوابی کا سلسلہ ان کے خاندان اکوڑ خیل میں رہا، یہ ٹیری ہی تھا جب رنجیت سنگھ پشاور کو روندتا ہوا یہاں آیا تو اُسے شکستِ فاش ہوئی۔ یہ علاقہ خٹک قبیلے کا تاریخی دارالحکومت اور اُس خوشحال خان خٹک کا دوسرا مرکز تھا جنہوں نے کہا تھا:

زہ خو د زڑہ درد غواڑم پہ ہر یو مذہب کے

پریگدہ ستا خبرے چہ نقلونہ رنگا رنگ کڑے

خوشحال بابا انسانوں سے محبت کا آفاقی پیغام عام کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ہمیں تو اے شیخ جی تمام انسانوں کا درد ہے اور یہی تعلیمات تمام مذاہب کی ہیں، یہ نفر ت کی باتیں تو تمہاری اختراع ہیں، جن کیلئے تم رنگا رنگ بہروپ اپناتے ہو‘‘۔ خوشحال بابا کے دیس میں پھر کیوں ابلیس رقص کناں ہوا اور امن پسند کیونکر تماشبین بننے کیلئے لاچار ہوئے؟ یہ معلوم کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس مقدس دین کے نام پر یہ سانحہ ہوا، اُس کی تعلیمات ہیں کیا؟ نبی کریمؐ کے دور میں اقلیتوں سے معاہدوں میں یہ ضمانت دی جاتی تھی کہ ان کی عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، أبو يوسف، کتاب الخراج)۔ حضرت خالد بن ولید ؓسے روایت ہے کہ’’حضور نبی اکرم ﷺنے غزوہ خیبر کے موقع پر غیرمسلم شہریوں کی اموال پر قبضہ کرنا حرام قرار دیا‘‘۔ (دارقطنی)

حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور میں مفتوحہ علاقوں کے باشندوں سے معاہدہ کیا جاتا کہ ان کے گرجے اور خانقاہیں منہدم نہیں کی جائیں گی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اہلِ بیت المقدس کو جو صلح نامہ لکھ کر دیا تھا، اُس میں تحریر تھا ’’اہلِ بیت المقدس کے گرجوں، صلیبوں کو امان ہے۔ نہ ان کو مسلمانوں کا مسکن بنایا جائے گا نہ منہدم کیا جائے گا‘‘۔ ازلی دشمن یہود و نصاریٰ کی عبادت گاہوں سے متعلق اسلام اگر حُسن ِ سلوک کی تعلیم دیتا ہے تو ہندوئوں کی عبادت گاہوں کو جبر کا نشانہ بنانےکی کس بنیاد پر اجازت ہو سکتی ہے؟ واقعہ کو سمجھنے کیلئے وفاقی وزیر فواد چوہدری کا ایک جملہ ہی کافی ہے کہ ’’یہ اقلیتوں کیخلاف ذہن سازی کا شاخسانہ ہے‘‘۔ ہم اس میں اتنا اضافہ کریں گے کہ صرف اقلیتیں ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص، جماعت اور طبقہ جو مخصوص سوچ سے اختلاف رکھتاہے وہ ایسے عناصر کے نزدیک قابلِ گردن زدنی ہے۔ نام نہاد افغان جہاد میں اس ذہن کی آبیاری کی گئی۔ کرک میں شرح خواندگی پورے پختونخواسے زیادہ 90فیصد تک ہے۔ وزیرستان، سوات، بنوں، بونیر، دیر، باجوڑ، مہمند، خیبر الغرض سابق فاٹا کے تمام علاقے انتہا پسندوں کے لئے محفوظ رہے ہیں لیکن پی ٹی ایم کی وجہ سے بیداری کی لہر کے بعد اب ایسے عناصر نئےٹھکانے تلاش کرسکتے ہیں۔ کرک کے واقعہ کو اس تناظر میں بھی دیکھاجانا چاہئے۔ اگر ٹیری وکرک کے عوام نے انتہا پسندوں کے عزائم کا بروقت ادراک نہ کیا تو یہ عناصر اب تک پراُمن رہنے والے پورے ’’خٹک نامے‘‘ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں کے باشعور عوام کسی کے کہنے پر راست اقدام اٹھانے سے قبل یہ تحقیق ضرور کر لیں کہ آیا دیا جانے والا درس کس قدر قرآن مجید اور سنت مبارکہ کے تحت ہے؟ اس کیلئے لازم ہے کہ قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھا جائے، نیز ترقی کی دوڑ میں دوسروں کا مقابلہ کرنے کیلئے اُس سائنس و ٹیکنالوجی کو اپنایا جائے جو دین کی ضد نہیں معاون ہے۔

تازہ ترین