• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صغر ندیم سید کیسے اچھے استاد ہیں۔ علم ناخنوں میں بھرا ہے۔ صاحبو، استاد محض لغت کا قارون نہیں ہوتا۔ معلومات کا کاٹھ کباڑ اٹھائے پھرنا استاد ہونے کی دلیل نہیں۔ صوفی غلام مصطفی تبسم اور ڈاکٹر نذیر احمد ایسے نکتہ وروں نے سجھایا کہ استاد تو ایک کیفیت کا نام ہے جو شفقت کے لہجے میں طالب علم کی تہذیب کرتا ہے، سوچنا سکھاتا ہے۔ استاد کا علم نمائش کی چیز نہیں، زیر زمیں پانی کی طرح جڑوں کو سیراب کرتا ہے۔ اصغر ندیم بھی اسی روایت کے بھگت ہیں۔ اگلے روز ان کے ایک طالب علم شہزاد علی ملنے آئے۔ بتایا کہ دستاویزی فلم کی تربیت پا رہا ہوں، روز مرہ زندگی میں گالی کی نفسیات پر ایک دستاویزی فلم بنانے کا موضوع ملا ہے۔ رہنمائی چاہتا ہوں۔ اصغر ندیم سید کے فرستادہ طالب علم کی رہنمائی کیا کرنا تھی۔ اس عزیز کے خیالات سے استفادہ کرتا رہا۔ خلاصہ یہ تھا کہ گالی انسانی احترام سے انکار کا اعلان ہے۔ گالی تذلیل اور دھمکی کا ایسا امتزاج ہے جس سے معاشرے میں تشدد کا اصول جواز پاتا ہے۔ تشدد مہذب معاشرے کو جنگل سے الگ کرنے والی بنیادی لکیر ہے۔ تہذیب دلیل اور مکالمے کا تقاضا کرتی ہے دوسری طرف جنگل میں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے تشدد کا سہارا لیا جاتا ہے۔ تشدد کی دھمکی بذات خود تشدد کا آغاز ہے۔ یہ خوبصورت استدلال کچھ روز پہلے سنا تھا لیکن اب متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کا بدھ کے روز صحافیوں سے طرز تخاطب سن کر پھر سے یاد آیا۔
الطاف حسین انتخابات کے بارے میں ذرائع ابلاغ کے تبصروں پر برافروختہ تھے۔ منجملہ دوسری باتوں کے فرمایا کہ ”صحافیوں کو جوتنقید کرنا ہے وہ کریں مگر پاکستان بنانے والوں کی اولادوں پر جھوٹے الزام لگانے کا عمل آپ نے بند نہیں کیا تو اگر کسی کا متھا گھوم گیا اور اس نے آپ کوٹھوک دیا تو پھر الطاف حسین کو الزام نہ دیجئے گا… کارواں چلتا ہے، کتے بھونکتے ہیں… تم ہمارے لونڈے ہو، ہمارے بچے ہو۔ کیا تم ہمیں سکھاوٴ گے کہ سیاست کیا ہوتی ہے۔ کل کے لونڈے ہمیں بتائیں گے کہ صحافت کے اصول کیا ہوتے ہیں… یاد رکھو جس دن رن پڑ گیا تو اس دن تمھیں بھاگنے کی جگہ ملے گی اور نہ تمہارے مالکان کو بھاگنے کی جگہ ملے گی۔“اس بیان میں گالی دشنام بھی ہے اور دھمکی بھی۔ جمہوری معاشرے میں یہ لب و لہجہ قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔ الطاف حسین پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہونے کے ناتے قومی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی جماعت انتخابی عمل میں حصہ لیتی ہے، چنانچہ وہ ایک جمہوری رہنما ہیں۔ ان پر اجتماعی اقدار کی استواری کے ضمن میں کہیں زیادہ نازک ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
پاکستان میں آج تک ہمارا بنیادی مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ ہم معاشرے سے تشدد کا اصول ختم نہیں کر پائے۔ آمریت تشدد کی بدترین صورت ہے۔ تاہم ایک غیر مہذب معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر تشدد کی بہت سی صورتیں موجود ہوتی ہیں اور ان سے ایک پیچیدہ تہذیبی بحران جنم لیتا ہے۔ ماضی میں جب ہم جمہوریت کا مطالبہ کرتے تھے اور اب جمہوریت کے استحکام کی خواہش کرتے ہیں تو ہمارا مقصد محض ایک انتخابی مشق نہیں تھا۔ ہمارا نصب العین تو ایک ایسے معاشرے کا قیام تھا جہاں تشدد کو ایک اصول کے طور پر رد کیا جائے۔ ایسا پاکستان جہاں مختلف سیاسی جماعتیں گٹھ جوڑ کرکے عورتوں کو ووٹ کے حق سے محروم کریں، پشاور میں فوجی جوانوں پر حملہ ہو، کوئٹہ میں مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوں، وحیدہ شاہ نامی امیدوار کسی انتخابی اہلکار کو تھپڑ مارے، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہو، پنجاب یونیورسٹی میں عمران خان کی پٹائی کی جائے یا یوسف رضا گیلانی کا فرزند اغوا کیا جائے، جمہوری پاکستان کہلانے کا سزاوار نہیں ہو سکتا۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے صحافیوں نے اے این پی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے خلاف دہشت گردی کی دو ٹوک مذمت کی۔ اس تمدنی تبدیلی کے ضمن میں سیاسی قیادت پر بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ الطاف حسین کے طرز تکلم سے اس اجتماعی منزل کا راستہ کھوٹا ہوتا ہے۔
مسئلہ تشدد کی شدت یا حجم کا نہیں، اصول کا ہے۔ جمہوری معاشرے میں تشدد کا اصول نہیں چل سکتا اور تشدد کے خلاف اجتماعی شعور بیدار کرنے کی ذمہ داری سب سے زیادہ سیاسی رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے۔ الطاف حسین برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ایسا کریں کہ لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ پر کسی کا بازو پکڑ کر کھینچیں۔ انہیں جمہوری معاشرے میں سیاسی اور قانونی سطح پر تشدد کے بارے میں حساسیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ کچھ برس پہلے سابق آمر پرویز مشرف نے لندن میں معروف صحافی ضیاء میاں کو دھمکاتے ہوئے انہیں ’دوطمانچے ٹکا دینے‘ کی چتاؤنی دی تھی۔ پاکستان کے خود ساختہ صدر کی اس گل افشانی سے ملک کے وقار میں بہت اضافہ ہوا۔ مشاہد حسین وزیر اطلاعات تھے تو سیاسی حریفوں کے ’کڑاکے نکالنے‘ سے شیفتگی رکھتے تھے۔ پاکستان کے صحافی باوردی آمروں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے ہیں، وہ جمہوری لبادے میں ملبوس آمریت سے ٹکرانے کا بھی حوصلہ رکھتے ہیں۔ صحافی کے پاس پستول نہیں ہوتا لیکن اس کے قلم کو پستول سے ڈرایا نہیں جا سکتا۔
الطاف حسین نے بجا فرمایا کہ پاکستان کے صحافی ان کے بچے ہیں۔ تاہم الطاف حسین کو نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ بھی قطب صاحب کی لاٹ نہیں ہیں، اسی ملک میں پلے بڑھے ہیں اور ان کا سیاسی ارتقاء ایک کھلی کتاب کی طرح اہل پاکستان کے سامنے ہے۔ پاکستان کے تمام سیاسی گروہوں، طبقات اور ریاستی اداروں کی طرح ایم کیو ایم کا ماضی بھی غلطیوں سے پاک نہیں۔ اگر جمہوریت کے مفاد کا یہ تقاضا ہے کہ ماضی کا اسیر ہونے کی بجائے مستقبل کے بارے میں سوچا جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ماضی کے روئیے بھی ترک کئے جائیں۔
کسی کو شوق نہیں کہ آپ کو سیاست یا صحافت کے اصول سکھائے جائیں لیکن آپ کو بھی سیاست یا صحافت کے اصول متعین کرنے پر اجارہ حاصل نہیں ہے۔ ”پاکستان بنانے والوں کی اولاد“ ہونے کا دعویٰ محل نظر ہے۔ پاکستان بنانے کے اعزاز پر کسی خاص زبان بولنے والوں کا اجارہ نہیں۔ اردو بولنے والے بہن بھائی سر آنکھوں پر لیکن اگست 47ء میں پنجاب کے دریا سرخ ہوئے، سندھ اسمبلی نے پاکستان کے حق میں قرار داد منظور کی تھی۔ پختونوں نے استصواب میں پاکستان سے عہد استوار کیا تھا۔ بلوچ سرداروں نے قائد اعظم کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا۔ آج پاکستان ایک تناور درخت جیسی ٹھوس حقیقت ہے اور اس درخت کو سرسبز رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس ملک میں سب لسانی، ثقافتی اور مذہبی گروہوں کو ایک جیسی عزت اور حقوق ملیں۔ پاکستان میں کسی گروہ کو حسب نسب یا مفروضہ تاریخی کردار کی بنیاد پر اشراف یا سادات قرار نہیں دیا جا سکتا۔ الطاف حسین قابل احترام رہنما ہیں۔ ان کے پیروکار تعلیم یافتہ اور روشن خیال ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی جماعت نے پاکستان کے بچھڑے ہوئے طبقات بالخصوص عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کیلئے قابل تحسین آواز اٹھائی ہے۔ تاہم انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی عمل میں دھمکی اور تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ دور کیوں جائیے۔ ہماری تاریخ میں ایک رہنما حسین شہید سہروردی تھے۔ دستور ساز اسمبلی میں نوابزادہ لیاقت علی سے گالی سہی، ایوب خان سے گولی کی دھمکی سنی، مغربی پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں پتھر بھی کھائے۔ جب تک جئے، پاکستان کا دم بھرتے رہے۔ ان کے بعد شیخ مجیب الرحمن سجادہ نشین ہوئے۔ دھمکی کی زبان میں بات کرتے تھے۔ لہجے میں بھبک تھی۔ انگارے اگلتے تھے، ملک ٹوٹ گیا۔ سیاسی رہنماؤں میں تحمل کی صفت سے قومیں تعمیر ہوتی ہیں۔ گالی اور دھمکی سے نفرت کی جو آگ بھڑکتی ہے اس میں سانجھ کی چادر جل جاتی ہے۔
تازہ ترین