چمکتا دمکتالاہور کوڑے دان میں بدل چکا ہے جس کی وجہ سے عوام میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ جب یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ترک کمپنی سے معاہدہ کی تجدید نہیں کرنی ہے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کے دل لاہورکی صفائی کیلئے قبل ازاختتام معاہدہ انتظامات کرلئے جاتے لیکن ایسا نہ ہوسکا، قبل ازوقت ترک کمپنی کے سامان کو قبضے میں لینے کا فیصلہ عدالت نے مسترد کردیا، پنجاب حکومت نے لاہور کی صفائی کا معاہدہ تو ہر حال میں نیا ہی کرنا ہے لیکن پنجاب کی زیر تربیت قیادت نے وفاق کی پیروی کرتے ہوئے تاخیر سے ٹینڈر جاری کیا جس سے چمکتا دمکتا لاہور کوڑے دان میں بدل چکا ہے جس کی وجہ سے عوام میں سخت بےچینی پائی جاتی ہے، سوشل میڈیا پر حکومت کے عدم اقدامات پر شدید تنقید کی جارہی ہےاور کہا جارہا ہے کہ تیاری نہیں تھی تو حکومت میں کیوں آئے؟
سانحہ ساہیوال کی سفاکیت ابھی آنکھوں سے محو نہیں ہوئی تھی کہ22 سالہ جدوجہد کی گردان کرنے والے کی عین ناک تلے ایک ماں کےبائیس سالہ اسامہ کو بائیس گولیاں مار کر چھلنی چھلنی کردیا گیا،جس کے سر پر ابھی شادی کاسہرا سجنا تھا، خون کے آنسوئوں میں ڈوبے مغموم باپ کو اسی بیٹے کو اپنے ہاتھوں نہلا کر ، کفن پہنا کر، سپرد خاک کرنا پڑا ، مجال ہے کہ پناہ گاہ اعظم نے ہمت کرکے اس کے والدین سے تعزیت ہی کی ہو۔
عوام کو سب کو یاد ہے کہ کسی بھی معمولی واقعہ پر یہاں صف ماتم بچھ جایا کرتی تھی ، بال نوچ نوچ کر ایسے ایسے بلند و بانگ نعرے اوردعوے اچھالے جایا کرتےتھےکہ جیسے قیامت برپا ہوگئی ہو،بل جلانے یوٹیلٹی کنکشن کٹوانے، عوام کو ٹیکس کی عدم ادائیگی پر اکسانے سے دنیا کو پاکستانی حکومت کو قرض دینے کےالٹی میٹم جاری کر نے تک ہر قسم کے تماشے ہوتے تھے، اسامہ کے قتل پر شہر اقتدار کے ذمہ داران کے لب سلے ہوئے ہیں۔
ادویات کی قیمتوں کو پانچ گنا بڑھانے کی ایک ظالمانہ توجیہہ پیش کی گئی کہ وزیر صحت نے کرپشن نہیں کی، اس کا تو کوئی قصور ہی نہیں بلکہ اس سے بس بد انتظامی ہوگئی تھی وہ قیمتیں کنٹرول نہیں کرسکا،ذیابیطس ،فشار خون ،انجائنا سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا کروڑوں عوام سے علاج کی سہولت چھین لی گئی ہے ، عوام مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر وزیر صحت کا کوئی قصور نہیں تھا تو قیمتیں واپس کم کیوں نہیں ہوئیں؟
سابقہ دور حکومت میں پٹرول کی قیمت ڈیڑھ روپے فی لٹر بڑھتی تھی تو اسے پٹرول بم گرایا گیا قرار دلوایا جاتا تھا ، مہنگائی کو حکمرانوں کی کرپشن کہلوایا جاتا تھا،جبکہ اپنی باری آئی تو تابعدار مثبت رپورٹنگ یوں کروائی گئی کہ قیمت بڑھانے کی سمری تو دس روپے بھجوائی گئی تھی لیکن احسان عظیم کرتے ہوئے فی لٹر پٹرول کی قیمت ڈھائی روپے بڑھا کر عوام کو نئے سال کا تحفہ دیا ہے، عوام برملا اظہار کررہے ہیں کہ ہوشربا مہنگائی بڑھنے کا سرے سے ہی اعتراف کرنے سے انکار کرکے اس بار اس کا جھوٹا پراپیگنڈا سچ نہیںمان سکتے ہیں۔
تازہ ترین قول زریں جاری ہوا ہے کہ عوام اب خوشخبریاں سنیں گے، اب وہ وقت بھی آئیگا جب ملک میں تیل کی نہریں بہیں گی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مرکزی اور ذیلی زیر تربیتوں کی فیصلہ سازی نے عوام کا تیل کشید کرلیا ہے، روزگار ختم اورچلتے ہوئے کاروبار بند ہونے کی نوبت آچکی ہے،مہنگائی اور بلوں نے فیملی لائف کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے، جس سے بشمول لوئر اور مڈل کلاس سب کی چیخیں نکل آئیں ہیں،عوام خودکشیوں پر مجبور ہوگئے لیکن حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ کیا کرے؟ کب تک عوام گردان لایعنی سنیں گے؟
صبح دوپہر شام بھونپوجھوٹے احتساب اور جعلی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، بدزبانی اور بد اخلاقی کے وہ ریکارڈ قائم کئے ہیں جن کو توڑنا کسی بھی جماعت کے بس میں نہیں ہوگی، عملی کام کرنے کی صلاحیت تو تھی نہیں البتہ پھر جب دیوالیہ ہونے کی نوبت آئی تو ملک کو 70 سال کے برابر قرضوں تلے دبا دیا گیا ہے ، قوم سے مانگنے سے لوٹنے کا سفر جس مستقل مزاجی سے کیا اس کیلئے یا تو انتہا درجے کا سنگ دل ہونا ضروری ہے یا پھر ،عوام کویہ بھی یقین ہوچکا ہے کہ اب ہماری قسمت کا بدلنے والی نہیں۔