آزاد کشمیر میں دنیا کی نظروں سے اوجھل قدیم قلعوں میں سے ایک تاریخی باغ سر قلعہ بھی ہے، جسے بھمبر کے قریب وادی سماہنی کے مشرق میں تعمیر کیا گیا۔ کچھ تاریخی عمارتیں ایسی ہیں جن کے سن تعمیر کے بارے میں حتمی طور پر نہیں بتایا جاسکتا کہ انہیں کب اور کس نے تعمیر کروایا، قلعہ باغ سر کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے جس کے سن تعمیر کے بارے میں درست معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
کچھ کا ماننا ہے کہ یہ قلعہ مغلیہ دور میں تعمیر کیا گیا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کی تعمیر ڈوگرہ دورِ حکومت کے دوران عمل میں آئی۔ قلعے کی بیرونی دیواریں مغل طرزِ تعمیر کی لگتی ہیں لیکن اس کا اندرونی طرزِ تعمیر مغل دور کا نہیں لگتا، قلعے میں بنے نقش و نگار ہندوانہ اندازِ تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں۔ قلعے کی شمالی فصیل میں بنے نقش و نگار ہندو طرزِ تعمیر کا پتہ دیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قلعہ باغ سر رنجیت سنگھ کے وزیراعظم دھیان سنگھ نے تعمیر کروایا تھا۔
یہ وہی دھیان سنگھ ہے جس کا بھائی گلاب سنگھ بعد میں ڈوگرہ حکمران بنا تھا۔ اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قلعہ باغ سر ڈوگرہ دورِ حکومت میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعے نے احمد شاہ ابدالی، رنجیت سنگھ اور گلاب سنگھ کے دور حکومت میں اہم کردار ادا کیا۔
اُس دور میں عام طور پر گزر گاہوں پر قلعے تعمیر کروائے جاتے تھے تاکہ اُن رستوں کی حفاظت کی جاسکے۔قلعہ باغ سر سطح سمندر سے تقریباً 975میٹر بلند پہاڑ پر تعمیر کیا گیا، جہاں سے ایک کے بجائے دو راستوں (مغرب میں مغل روڈ اور مشرق میں کبوتر گالا) کی حفاظت کی جاسکتی تھی۔ قلعہ باغ سر کو اپنے اسٹریٹجک محل وقوع اور خوبصورت و پُرسکون ماحول کی وجہ سے مرکزی مقام کی حیثیت حاصل تھی۔
پہاڑ کی چوٹی پر سر سبز درختوں سے جھانکتے چار منزلہ قلعہ باغ سر کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر گرینائٹ استعمال کیا گیا۔ قلعے کے اندر صدر دروازے کی طرف ایک باؤلی (تالاب) بھی موجود ہے جو عموماً پہاڑی پانی کو جمع کرنے کے کام آتی تھی اور اس سے پورے قلعے کو پانی فراہم کیا جاتا تھا۔
باغ سر کا مطلب ہے پانی اور باغات کی سرزمین۔ باغ سر دراصل قدرتی حسن سے مالا مال علاقہ ہے۔ ڈوگرہ حکمران مہاراجہ رنبیر سنگھ نے قلعہ باغ سر سے نیچے مشرق کی جانب ایک ٹھنڈے پانی کی جھیل بنوائی تھی۔ تقریباً نصف کلومیٹر طویل اس جھیل میں بہت سے مقامی اور نقل مکانی کرنے والے پرندے، خاص طور پر بطخیں اور ہنس آتے ہیں۔
یہ قلعہ اور اس کے دامن میں واقع جھیل کافی مشہور ہیں اور یہ دونوں اسی علاقے کے نام سے منسوب ہیں۔ اس علاقے میں کئی باغات بھی موجود ہیں۔ قلعے کے آس پاس کی پہاڑیاں چیڑ یا دیودار کے درختوں اور گُلِ سوسن سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قلعہ باغ سر میں کئی بادشاہوں نے قیام کیا اور اس علاقے کی آب و ہوا اور فطرت سے بھرپور لطف اندوز ہوئے۔
قلعہ باغ سر عین لائن آف کنٹرول پر واقع ہے، جس کی وجہ سے اس کی دفاعی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ قلعہ پاک فوج کے پاس ہے جو اپنے طرز تعمیر کے حوالے سے بھی دفاعی حصار ہے۔ قلعے کی فصیل بہت چوڑی ہے، جس سے جھانکا جائے تو ایک طرف مقبوضہ کشمیر نظر آتا ہے۔ قلعہ باغ سر کے صدر دروازے والے حصے کو بھارتی گولہ لگنے سے شدید نقصان پہنچا جس کے آثار اب بھی نظر آتے ہیں۔ قلعے کی فصیل کے ساتھ فوجیوں کے لیے کمرے بھی بنوائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ اس میں ایک سرنگ بھی بنائی گئی تھی۔
سرائے سعد آباد
قلعہ باغ سر جاتے ہوئے راستے میں زمانے کی شکست و ریخت کا شکار ایک سرائے بھی آتی ہے، جسے سرائے سعد آباد کہا جاتا ہے۔ مغلیہ طرز پر بنی اس عمارت کی محرابیں، کچھ کمرے اور داخلی دروازہ اب بھی قائم ہے۔ پنجاب سے کشمیر کے تاریخی راستے پر واقع یہ سرائے ماضی میں ایک اہم پڑاؤ تھا۔ بڑے سے دروازے کے چاروں اطراف بنے ہوئے کمرے اور درمیان میں بڑا سا صحن سرائے کے شاندار ماضی کا گواہ ہے۔
یہ اس گزرگاہ کا سنگ میل ہے جس کا استعمال مغل شہنشاہ جہانگیر کشمیر جانے کے لیے کرتا تھا۔ یہ جہانگیری گزرگاہ تھی جو دلی سے لاہور، سیالکوٹ ، بھمبر سے ہوتی ہوئی یہاں آنکلتی تھی اور پھر مقبوضہ کے شہر نوشہرہ، ناریاں سے ہوتی ہوئی راجوری اور پھر پونچھ پہنچتی تھی۔ قلعہ باغ سر کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سے دہلی اور لاہور کا فاصلہ تقریباً یکساں ہے۔
مشہور مغل شہنشاہ جہانگیر کے بارے میں مشہور ہے کہ 1627ء میں کشمیر سے واپسی پر وہ ہیضہ کا شکار ہوکر سرائے سعدآباد کے قریب وفات پاگیا تھا۔ وہیں پر اسے حنوط کیاگیا اور اس کے اندرونی اعضاکو باغ سر میں دفن کردیا گیا۔ بعدازاں جسدِ خاکی کو باغ سر سے لاہور لے جایا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ عام سی قبر بارشوں اور کائی سے معدوم ہوچکی ہے۔