• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں شہیدوں اور لاشوں کو بھی انصاف کیلئے احتجاج کرنا پڑتا ہے، یہاں بنیادی انسانی ضروریات کی اشیاء مہنگی ہیں مگر انسانی خون سستا ہے جو ریاست عوامی جان ومال کا تحفظ نہیں کر سکتی اسے ریاست کہلانے کا کوئی حق نہیں ۔

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں پر جو قیامت ٹوٹی ہے پوری قوم آپ کے دکھ میں شریک ہے، میں گزشتہ پانچ روز سے دیکھ رہی ہوں کہ ہزارہ برادری شدید سردی میں اپنے پیاروں کی میتیں رکھ کر کسی بے حس کو پکار رہی ہے۔

میں تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر وزیر اعظم سے کہتی ہوں کہ آپ کی انا ان مظلوموں کے دکھوں سے بڑی نہیں ہے، آپ یہاں آئیں اور ان کے دکھوں پر مرہم لگائیں، ریاست تو ماں ہوتی ہے مگر افسوس یہاں اپنے ان بچوں کے ساتھ ماں جیسا سلوک نہیں کیا جا رہا۔

اپوزیشن قیادت نے دکھ کی اس گھڑی میں ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ جس یکجہتی و یگانگت کا مظاہرہ کیا ہے، یہ قومی تقاضا تھا جو یقیناً قابل تحسین ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس حوالے سے اصل ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔

وزیر اعظم عوام کا نمائندہ ہوتا ہے مظلومین کا یہ مطالبہ کہ وہ اپنے شہداء کی میتیں تب تک دفن نہیں کریں گے جب تک وزیر اعظم خود آکر ہمارا دکھ نہیں سنتے ، کسی بھی طرح غلط قرار نہیں دیا جا سکتا اور وزیر اعظم کو ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر وہاں پہنچنا چاہئے تھا۔

انہوں نے اپنے جن وزیروں مشیروں کو بھیجا انہوں نے اپنے غیر ذمہ دارانہ رویے سے بجائے دکھی دلوں پر مرہم لگانے کے الٹی سیدھی کچھ ایسی باتیں کیں جنہیں کانوں سے سنتے ہوئے بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔اور یہ باتیں وہ لوگ کر رہے تھے ،جن کے گلے ریاست مدینہ کی مثالیں دیتے ہوئے خشک نہیں ہوتے۔کیا انہی کے لیڈر نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ صدر آصف زرداری کو شہداء کی تعزیت کیلئے یہاں خود آنا چاہئے، بلوچستان کی صوبائی حکومت کو اتنی بڑی نااہلی کے بعد فارغ کر دینا چاہئے۔

کیا آج عامتہ الناس یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب نہیں کہ اگر آپ ڈراموں کے حوالےسے اداکاروں کے ساتھ گھنٹوں طویل نشست کر سکتے ہیں تو اس قدر مظلوم کمیونٹی کے ساتھ اظہار ہمدردی کیلئے کیوں نہیں جا سکتے ؟ذرا اس منظرنامے کا تصور تو کریں کہ کس طرح شناختی کارڈوں کے ذریعے تصدیق کی جا رہی تھی کہ یہ لوگ واقعی فلاں مذہبی عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں اور پھر ان کے ہاتھ پائوں باندھ کر چھریوں اور چاقوئوں کے ساتھ ان کے گلے کاٹے جا رہے تھے۔ جس میں انسانیت کی ذرا سی بھی رمق ہے، وہ اس دردناک صورتحال کا تصور کرتے ہوئے بھی کانپ اٹھتا ہے۔

ایک ہزارہ نوجوان مشتاق حسین، جس نے میٹرک کے امتحان میں1053نمبر حاصل کرتے ہوئے کوئٹہ میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی، محض غربت کی وجہ سے تعلیم کے ساتھ ساتھ مچھ کی ایک کوئلہ کان میں مزدوری کر رہا تھا، وہ بھی اس المناک داستان کا حصہ بن گیا۔

آج یہاں سارا زور اس بات پر ہے کہ ہزارہ شہداء کے ایشو کو کسی بھی طرح فرقہ واریت کے تناظر میں پیش نہ کیا جائے بالکل ٹھیک ہے، بلاشبہ ہمیں مذہبی تقسیم کی بنیاد پر کسی بھی اشتعال انگیزی سے کامل اجتناب کرنا چاہئے لیکن کیا لمحے بھر کیلئے مصلحت کو چھوڑ کر سچائی کی بات کی جاسکتی ہے ، کیا حملہ آور شدت پسند نہیں تھے جنہوں نے صدیوں پر محیط تہذیبی یگانگت کے خطے میں مذہبی تقسیم و تحصیص کے نام پر آگ لگائی ہوئی ہے اوریہ ملک دشمن عناصر مذہبی منافرت پھیلانے کے حوالےسے دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے؟ کون سی مذہبی اقلیت ہے جو یہاں محفوظ رہی ہے؟

ہزارہ کمیونٹی پر جو قیامت برسوں سے ٹوٹتی چلی آ رہی ہے، اس ملک میں شاید کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہو گا جو اسے قابل مذمت قرار نہیں دیتا ہوگا لیکن اگر ہم حقیقی معنوں میں اس کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں لازماً اس کی وجوہ سمجھنے اور بیان کرنے کی ذمہ داری بھی ادا کرنی ہو گی۔

ہمیں یہ شعوری نقطہ اٹھانا ہو گا کہ اتنی امن پسند اور بے ضرر کمیونٹی پر آئے روز یکطرفہ ظلم کے پہاڑ کیوں توڑے جاتے ہیں؟ کیا یہ ریاست کا فریضہ نہیں ہے کہ مذہبی منافرت کی آگ بھڑکانے والوں کے خلاف طے شدہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کروائے نہ صرف قومی تعلیمی نصاب کی تطہیر کرے بلکہ مساجد، مدارس اور میڈیا پر لازم ٹھہرائے کہ ایسی بدبو کہیں سے پھوٹنے نہیں پائے گی،آپ کو رستے بند ہونے پر تو مشکلات کا احساس ہے جن کی سانسیں بند کر رکھی ہیں ان کے دکھوں کا ادراک کیوں نہیں ہے؟

کیا ہزارہ یا ان جیسے دوسرے طبقات لاوارث ہیں، کیا اس ریاست میں وہ برابر کے شہری نہیں؟ کیا آئین میں ان کے انسانی حقوق درج نہیں؟ براہِ مہربانی وزیر اعظم مزید تاخیر کئے بغیر کوئٹہ جائیں اور ان مظلوموں کے دکھوں کا مداوا کریں۔

تازہ ترین