• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1999میں ایک امریکن آسٹریلین فلم ریلیز ہوئی، نام تھا The Matrix( میٹرکس) ۔یہ سائنس فکشن طرز کی فلم تھی جس نے آنے والے برسوں میں ہالی وڈکی ایکشن فلموں کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ۔اس فلم کامرکزی خیال بے حد حیرت انگیز ہے۔اس فلم میں ایک ایسے خوفناک مستقبل کی تصویر کشی کی گئی ہے جس میں انسان حقیقت یا سچائی کا ادراک نہیں کر پاتا کیونکہ چند”با شعور مشینیں“ ایک ایسی ”بناوٹی حقیقت“تخلیق کر دیتی ہیں جس کا مقصد انسانوں کو اپنے تابع کرنا ہوتا ہے ۔فلم کا ہیرو Neoیعنی Keanu Reevesیہ بات جان لیتا ہے اور پھر وہ ان مشینوں کے خلاف ایک خوفناک جنگ لڑتا ہے جس میں وہ لوگ بھی اس کے مددگار ہوتے ہیں جنہوں نے خود کو کسی طرح اس ”تخیلاتی “دنیا سے آزاد کروا لیا ہوتا ہے۔ 136منٹ دورانئے کی اس فلم پر کل 63ملین ڈالر لاگت آئی جبکہ اس نے اپنے پروڈیوسرز کو 40کروڑ ڈالر کما کر دئیے ۔فلم نے چار اکیڈمی ایوارڈز بھی حاصل کئے۔
بظاہر فلم کے مرکزی خیال کا ہماری روز مرہ کی دنیا سے دور تک کا بھی تعلق نہیں کیونکہ اس دنیا میں مشینوں نے انسان کو اپنے تابع نہیں بلکہ انسانوں نے مشینوں کو اپنے تابع کر رکھا ہے، ہم ایک ایسی حقیقی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں محبتیں بھی ہیں اور نفرتیں بھی ،بے رحم زندگی ہے اوراس سے بھی بے رحم موت۔ ہمارے بچے ہیں، والدین ہیں ،پھول ہیں ،پہاڑ ہیں،دریا ہیں،ندی نالے ہیں ،سمندر ہیں ،وحشی جانور ہیں ،ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، طاقتور مافیا ہیں، سیاست دان ہیں، حکومتیں ہیں، لکھاری ہیں، فلسفی ہیں، کھلاڑی ہیں،اولمپک کے مقابلے ہوتے ہیں ،کرکٹ کا ورلڈ کپ ہوتا ہے ،انگلش پریمیئر لیگ ہے، یورپین یونین ہے ،اقوام متحدہ ہے ،بیکٹیریا ہیں ،ٹی وی چینلز ہیں …غرض ایک بھاگتی دوڑتی زندگی ہے جو مکروہ بھی ہے اور دلفریب بھی،کسی کے لئے جنت ہے اور کسی کے لئے جہنم،یہاں کوئی روز جیتا اور کوئی روز مرتا ہے … کیا یہ سب حقیقت نہیں ؟ کیا یہ سب سچائیاں نہیں ؟ ایک نومولود بچے کے جنم سے زیادہ سچی بات بھلا کیا ہو سکتی ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سب خواب ہو،ڈھکوسلہ ہو ،دھوکہ ہو؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہوں جو سراسر خود فریبی پر مبنی ہو؟امام غزالی نے اس مسئلے پر نہایت دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی ہے ،”المنقذ من الضلال “ میں لکھتے ہیں :
”جب میں نے غور کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ اس قسم کا یقینی علم صرف محسوسات اور بدیہات کا حاصل ہے، لیکن جب کدو کاوش زیادہ بڑھی تو محسوسات میں بھی شک ہونے لگا ۔مثلاً سایہ بظاہر ساکن نظر آتا ہے لیکن تجربے و مشاہدے سے ثابت ہواکہ وہ ساکن نہیں ،بلکہ آہستہ آہستہ حرکت کر رہا ہے ۔محسوسات پر یقین نہ رہا تو بدیہات پر بھی اعتماد نہیں رہا ۔مثلاً یہ بدیہی ہے کہ دس کا عدد تین سے زائد ہے ۔لیکن محسوسات کے متعلق عقل نے فیصلہ کر دیا کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں تو ممکن ہے کہ عقل کے اوپر بھی ایک درجہ ہو جو فیصلہ کر دے کہ بدیہات بھی قابل یقین نہیں ہیں۔ مثلاً خواب میں انسان جن چیزوں کو دیکھتا ہے ان کو یقینی سمجھتا ہے ،لیکن جب بیدار ہوتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کوئی اصلیت نہیں تھی ۔بعینہ وہ بیداری کی حالت میں جن محسوسات و معقولات کو یقینی سمجھتا ہے ممکن ہے اس کے بعد اس پر ایسی حالت طاری ہو جائے جس سے اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کی بیداری بھی ایک خواب تھی جس میں اس نے جن چیزوں پر یقین کیا تھا وہ قابل اعتماد نہ تھیں ۔“
افلاطون کی مشہور زمانہ غار کی تمثیل بھی یہی بتاتی ہے۔ چند زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگ ایک غار میں بیٹھے ہیں،ان کے پیچھے ایک الاؤ روشن ہے ،وہ گردن گھما کر نہیں دیکھ سکتے ،چنانچہ جن اجسام کے سائے ان کے سامنے غار کی دیوار پر نظر آتے ہیں وہ انہی کو حقیقت سمجھ لیتے ہیں اور ان اجسام کی اصل حقیقت کبھی نہیں جان پاتے اور ایک قسم کی خود فریبی میں مبتلا رہتے ہیں ۔ڈیکارٹ کا بھی مفروضہ یہی تھا کہ ممکن ہے بظاہر نظر آنے والی یہ دنیا ایک عظیم سراب ہو جس کی تخلیق کا مقصد انسان کو فریب دینا ہو!
یہ فلسفیانہ اور فلمیانہ موشگافیاں اپنی جگہ مگر حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اگر آپ نے چھتیسویں منزل سے نیچے اترنا ہو تو آپ لفٹ کا سہارا لیں گے ،Matrixکے ہیرو Neoکی طرح اس بلڈنگ سے یہ سوچ کر چھلانگ نہیں ماریں گے کہ یہ دنیا محض فریب نظر ہے ۔ڈیکارٹ کی کمر میں بھی جب درد اٹھتا تھا تو وہ کسی طبیب سے ہی رجوع کرتا تھا،یہ سوچ کر گھر نہیں بیٹھ رہتا تھا کہ دنیا ایک سراب ہے اور کمر کا درد محض اس کا وہم۔ایک نوجوان ،جس نے تازہ تازہ فلسفے میں ایم اے کیا تھا ،ایک روز ناشتے کی میز پر اپنے ان پڑھ والد کو فلسفیانہ گتھیاں سمجھانے کی کوشش کرنے لگا ۔”ابا جی،یہ دیکھئے،بظاہر یہ ایک انڈا ہے ،مگر حقیقت یہ نہیں ہے ،سچائی یہ ہے کہ یہاں دو انڈے ہیں ،مگر ہمیں اپنے حواس کے تابع ایک ہی انڈا دکھائی دے رہا ہے…!“ ابا جی اپنے بیٹے کی ان باتوں سے اکتائے بیٹھے تھے ،فوراً انڈا اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالتے ہوئے بولے ”بیٹا،ایک انڈا تو میں نے کھا لیا ،دوسرا تم کھا لو۔“
ہمارے بعض تجزیہ نگاربھی اسی قسم کے ”انڈے دانشور“ ہیں ۔ بظاہر نظر آنے والی حقیقتوں کے پیچھے چھپی ہوئی ”اصل حقیقت“ ان پر فوراً آشکار ہو جاتی ہے ۔اس دنیا کو کون سے ارب پتی خاندان پچھلے دو سو سال سے کیسے کنٹرول کر رہے ہیں ،انہیں سب پتہ ہے !انہوں نے اس امریکی منصوبے کا بھی سراغ پا لیا ہے کہ اگلے چند برسوں میں امریکہ ہمارے جسموں کے اندر ایک ایسی چپ ڈال دے گا جس سے وہ ہمیں اپنا غلام بنا سکے گا (حالانکہ امریکہ کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ،ہم میں سے اکثریت پہلے ہی اس کی غلام ہے،جسے شبہ ہے وہ کسی روز امریکی سفارتخانے کے باہر ویزے کے حصول کیلئے لمبی قطار میں کھڑا ہو کر دیکھ لے)۔
یہ وہ تجزیہ نگار ہیں جنہیں اس ملک میں سازشی تھیوریاں بے نقاب کرنے سے ہی فرصت نہیں ۔افلاطون کے یہ برادر نسبتی سمجھتے ہیں کہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے غار کی زنجیریں توڑ کر اپنے آپ کو آزاد کر لیا ہے اور اب حالات کی سچی حقیقت صرف انہی پر القاہوتی ہے ۔ان کے نزدیک ملالہ یوسف زئی کو گولی نہیں لگی تھی بلکہ وہ سب ایک ڈرامہ تھا جس میں آرمی چیف سے لے کر میڈونا تک اور طالبان سے لے کر بان کی مون تک سب ملے ہوئے تھے۔ان دانشوروں کا کہنا تھا (ہے)کہ ہماری مارکیٹوں ،درباروں ،سکولوں ،فوج اور سیکیورٹی اداروں پر حملے طالبان نہیں کرتے بلکہ یہ ایک صیہونی ،امریکی ،بلیک واٹر،منرل واٹر ،سوڈا واٹر اورنہ جانے کون کون سی سازش ہے جس کا مقصد ہمارے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرنا ہے۔ ان کے آگے طالبان ڈھول بجا کر اعلان کرتے رہے کہ یہ ہم ہیں جو تمہارے بچوں کو مارتے ہیں ،مگر انہوں نے اسے بھی ”Matrix“ہی سمجھا ۔پھران لوگوں کو الہام ہوا کہ انتخابات نہیں ہوں گے،کیونکہ ”اصل حقیقت“صرف انہی پر آشکار ہوتی تھی لیکن پھر انتخابات بھی ہو گئے ۔اب تازہ ترین سازش انہوں نے یہ ڈھونڈی ہے کہ در حقیقت انتخابات نہیں ہوئے بلکہ انتخابات کے نام پر فریب کیا گیا ہے ۔اس کے جواب میں انہیں یہی کہا جا سکتا ہے کہ عوام نے تو انتخابات کا ”انڈا“ کھا لیا ہے ،دوسرا ”انڈا“ بے شک آپ کھا لیں ،کسی کو اعتراض نہیں ہوگا!
تازہ ترین