• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال کی طرح دوہزار بیس بھی گزر گیا۔یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ برس کی حشر سامانیاں کرہ ٔارض پر اپنے اَن مِٹ نقوش چھوڑ گئیں کہ ایک مہین سے وائرس سے پھیلنی والی وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سائنسی ترقّی، طبّی سہولتوں اور جدید ٹیکنالوجی کے تمام زعم جیسے بے بس ہوکر رہ گئے۔ غرض کہ اس وبا نے ترقّی یافتہ اور ترقّی پذیر سب ہی مُمالک کو زیروزبر کرڈالا۔ ہر جگہ ہی سے’’الامان الحفیظ‘‘ کی صدائیں بُلند ہونے لگیں۔ اسپتال مریضوں سے بَھرے تو قبرستان قبروں سے۔ 

بچاؤ کی واحد صُورت انسانوں کا ایک دوسرے سے دُور رہنا ٹھہرا۔ معاشرتی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ پھر علم و تحقیق کے دریچے وا ہوئے۔ خدمت و ایثار کے جذبوں سے سرشار معالجین نے اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر ہم دردی کی لازوال مثالیں قائم کیں اور کررہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو دردمند دِل عطا کیا ہے، تو شعور اور علم کی منزلیں طے کرنے والا دماغ بھی۔ 

گزشتہ برس انسانوں کے یہ اوصاف نئے اور بہتر انداز میں سامنے آئے، مختلف تحقیقات ہوئیں، علاج اور احتیاط کے بہتر سے بہتر طریقے متعارف کروائے گئے۔ ویکسین دریافت ہوئی، تو آئندہ برسوں میں زندگی کو بہتر اور محفوظ بنانے کی اُمید پھر سے جاگ اُٹھی۔گئے برس نے دُنیا سے جانے والوں کی گنتی کو تکلیف دہ حد تک بڑھا دیا۔ ہزاروں نہیں، لاکھوں نفوس اپنے عزیزو اقارب کو اشک بار چھوڑ کر ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ 

ہم میں سے کئی لوگوں کے لیے 2020ء اپنوں سے دائمی جدائی کا سال ٹھہرا۔بہرحال، سالِ گزشتہ کی صعوبتوں نے ہم سب کو بہت سے سبق بھی سکھائے اور سب سے بڑا سبق جو سکھایا، وہ یہی ہے کہ کسی بھی لمحے آخرت کے سفر کا آغاز ہو سکتا ہے، لہٰذا ہمیں اس سفر کی تیاری ہر پل پوری رکھنی چاہیے۔دُنیاوی زندگی کا سروسامان اُسی وقت کار آمد ثابت ہوسکتا ہے، جب اُسے ربّ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حاصل کیا اور برتا جائے۔ 

یوں بھی زیادہ سے زیادہ کی خواہش نے انسان کو دیا ہی کیا ہے۔سکندرِ اعظم نے آدھی دُنیا فتح کی، لیکن جب آخری سفر پر روانہ ہوا، تو خالی ہاتھ تھا۔ کئی ترقّی یافتہ مُمالک اس بیماری کے ہاتھوں جس طرح بے بسی اور لاچاری کی تصویر بن کر سامنے آئے، مال وزر کے پجاریوں کے لیے اس میں کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ طاقت کے حریصوں کے لیے یہ ایک بڑا درس ہے کہ ہزاروں ایٹم بمز کا مالک ہونے کے بعد بھی ایک مہین سا وائرس انہیں مات دے سکتا ہے۔

گئے سال کے دُکھ اپنی جگہ، لیکن نیا برس ایک نئی اُمید لے کر طلوع ہوا ہے۔ ہوش مند زندگی کی اہمیت سمجھتے ہیں کہ یہ دُنیا اگلے سفر کی تیاری کی جگہ ہے۔ابھی نئے سال کی شروعات ہے، اپنے حاصل اور لا حاصل پر نظر ڈالیں۔اپنے لیے اور اپنے قریبی لوگوں کے لیے اچھا سوچیں۔ گئے سال نے رشتوں کی اہمیت اور ان سے دُوری کے احساس سے بھی آشنا کیا کہ چاہنے کے باوجود ایک دوسرے سے مل نہ پانا بھی کتنی بڑی اذّیت ہے۔ نئے برس میں رشتوں کی آب یاری محبّت سے کریں۔ باہمی تعلقات مستحکم کریں۔ زمینی فاصلوں کو دِلوں کے درمیاں حائل نہ ہونے دیں۔ قربتوں کی پنیری لگائیں، خوشی اور اُمید کے پودے اُگائیں۔

اپنے ارد گرد کی دُنیا کو حسرت و یاس سے نکالیں اور مسّرت و شادمانی کے پھولوں سے اپنی دُنیا سجا ڈالیں۔یاد رکھیں،زندگی کا ہر پَل قیمتی ہے ۔ اللہ تعالی نے خسارے سے بچنے کا ایک ہی راستہ بتایا ہے کہ ایمان کو دِل کی گہرائیوں میں اُتارو اورنامۂ اعمال کو نیک کاموں سے مزیّن کرو۔ انسانوں کو ایک دوسرے کی محبّت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔سو، ضروری ہے کہ ہم ایمان کو دِل کی گہرائیوں میں اُتاریں، اپنی جبینوں کو شُکر کے سجدوں سے آراستہ کریں۔اور جس قدر ممکن ہو، اپنے پیاروں سے میل جول بڑھائیں اور حُسنِ سلوک اختیار کریں۔

تازہ ترین