• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمان راولپنڈی جانے کیلئے اتنے پرعزم کیوں؟

کراچی (مظہر عباس) مولانا فضل الرحمان اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی جانے کے لئے اتنے پرعزم کیوں ہیں اور اپنی تنقید کو وزیراعظم عمران خان سے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی جانب کیوں منتقل کردیا ہے؟

یہ ایک غیر معمولی بات ہے اور اس نے حزب اختلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو نا صرف ایک مشکل پوزیشن میں ڈال دیا ہے بلکہ اس سے ان لوگوں کو بھی پریشانی لاحق ہوگئی ہے جو اہمیت رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کے پیچھے کون ہے جیسا کہ وہ ایسے شخص نہیں ہیں جو ’خودکشی کے مشن‘ پر چلے جائیں؟ یہ دس لاکھ ڈالرز کا سوال ہے۔

مولانا وہ نہیں جو تنہا پرواز پر جاتے ہیں بلکہ اب تک وہ وزیر اعظم عمران خان کیلئے مسائل پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں جو ان کے سیاسی حریف ہیں جو سینیٹ انتخابات کے بعد اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے والے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلق کو برقرار رکھا ہے۔

لہٰذا وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے آخری دھرنے میں مولانا کو مصروف رکھا؟ مولانا کا غصہ بظاہر ان کے آخری دھرنے میں چند حلقوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی مبینہ خلاف ورزی سے تعلق رکھتا ہے اور وہ بھی اسپیکر پنجاب اسمبلی اور پی ایم ایل کیو رہنماء چوہدری پرویز الٰہی کی موجودگی میں جو خود بھی پی ٹی آئی حکومت کے اتحادی ہیں۔

اس لئے امکانات یہ ہیں کہ وہ اسلام آباد مارچ کے لئے پی ڈی ایم کے منصوبے کے بجائے اپنے پنڈی منصوبے پر آگے بڑھیں گے لیکن سب کا انحصار اس بات پر ہے کہ 19 جنوری، اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر کے باہر احتجاج، کے بعد حالات کس طرح چلتے ہیں۔

پی ایم ایل کیو رہنماء نے ایک بار مجھے تصدیق کی تھی کہ پچھلے سال دھرنے کے دوران مولانا نے ممکنہ سیاسی پیشرفت کے بارے میں کچھ ’پختہ یقین دہانی‘ دیئے جانے کے بعد ہی اسے ختم کردیا تھا لیکن یہ اقدام عمل میں نہیں آ سکا۔ لہٰذا مولانا، چوہدری پرویز الٰہی اور وہ جنہوں نے مذاکرات کئے تھے جانتے ہیں اصل میں کیا ہوا تھا اور کیا وعدہ کیا گیا تھا۔

اس وقت یہ اطلاعات بھی آرہی تھیں کہ اگر کوئی شخص جو ان ساری پیشرفتوں سے خوش نہیں تھا تو وہ کوئی اور نہیں وزیر اعظم عمران خان تھے جنہوں نے یہاں تک پوچھا تھا کہ انہیں اسلام آباد آنے اور دھرنا دینے کی اجازت کیسے دی گئی؟

چند روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے سیاست میں آرمی کے ملوث ہونے کے الزامات مسترد کردئیے تھے اور یہاں تک کہا تھا کہ پنڈی تک اپوزیشن مارچ کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن ہلکے موڈ میں کہا تھا کہ اگر وہ آئے تو مولانا کا استقبال کریں گے۔

مولانا نے بھی پنڈی جانے کے مؤقف یا نظریہ کی تبدیلی کا کوئی اشارہ دئیے بغیر اسی انداز میں جواب دیا۔

اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اپنی پوزیشن واضح کردی ہے کہ ان کا کوئی ’پنڈی منصوبہ‘ نہیں ہے اور استعفوں، ضمنی انتخابات ااور سینیٹ انتخابات پر اپنی پوزیشن کی طرح فریم ورک کے اندر حکومت کو چیلنج کرنا چاہتی ہے اور مسلم لیگ نون سے آگے جانے میں دلچسپی نہیں رکھتی، وہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے مسلم لیگ نون کے رہنماء نواز شریف سے ملنے کے بعد لندن سے واپس آنے کے بعد نئی حکمت عملی کا انتخاب کرسکتی ہے۔وہ پارٹی کے صدر شہباز شریف اور مریم نواز سے ملاقات کریں گے۔

یہ سچ ہے کہ عمران خان نے خیبر پختون خواہ کی سیاست کی سیاسی حرکیات کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے ۔انہوں نے نا صرف جے یو آئی کے ووٹ بینک بلکہ جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ووٹ بینک پر بھی ضرب لگائی۔

اگرچہ عمران نے فاٹا میں فوج کے آپریشن کے خلاف ایک بہت سخت پوزیشن لی، اور پھر مذہبی جماعتوں بلکہ عین اسی وقت مذہبی اور سیکولر دونوں پارٹیوں پر افغان بحران گہرا کرنے میں ان کے کردار کا الزام لگایا۔

92 ورلڈ کپ کے کپتان کی حیثیت سے اپنی بہادر شبیہہ کے ساتھ ، ان کی موجودگی اور صلاحیت نے بھی کرکٹ کو کے پی اور سابق فاٹا میں بھی مقبول کردیا ۔

اسی پس منظر میں اسٹیبلشمنٹ عمران کو ایک ایسے فرد کے طور پر دیکھتی ہے جو مذہبی انتہا پسندوں کو بے اثر کرنے کے ساتھ ساتھ لبرلز کو بھی راغب کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

اگرچہ عمران اور پی ٹی آئی کو کے پی میں بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہوگئی تھی لیکن وہ مسلم لیگ (ن) کی عوام اور پنجاب میں اس کے ووٹ بینک میں زیادہ دراڑیں پیدا نہیں کرسکے۔ اگر مسلم لیگ (ق) ، جنوبی پنجاب محاذ اور ایم کیو ایم (پاکستان) مخلوط حکومت میں شامل نہ ہوتی تو وہ مرکز اور پنجاب میں حکومت نہیں بناسکتے تھے۔

تازہ ترین