• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے حال ہی میں ایران پر ایک نیا الزام لگایا ہے کہ ایران ’’القاعدہ‘‘ کا نیا ’محفوظ گھر‘ بن چکا ہے اور القاعدہ، کو سپورٹ بھی کر رہا ہے، گزشتہ سال ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے ایک بم دھماکے میں قتل کے بعد ایران امریکہ میں پہلے سے موجود تنائو میں مزید اضافہ ہو چکا ہے، روایتی طور پر برطانیہ کی اندرونی اور بالخصوص خارجہ پالیسی امریکہ کے عالمی تعلقات کے تناظر کو مدنظر رکھ کر یا اس کے قریب قریب ہی مرتب کی جاتی ہے لیکن اس دفعہ دلچسپ امر یہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے ترجمان نے کہا ہے کہ اب جبکہ بریگزٹ ہو چکا ہے لہٰذا برطانوی حکومت اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری کے لئے اقدامات کرے گی۔ 2017ء میں جب موجودہ وزیراعظم بورس جانسن برطانوی وزیر خارجہ تھے تو اُس وقت بھی انہوں نے ایران کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے بعد ہمارے مابین مثبت اور تعمیری دور کا آغاز ہو گا، اس ضمن میں برطانیہ کی طرف سے یہ ’اشارہ‘ بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ چند مہینے پہلے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے برطانیہ نے فرانس اور جرمنی کے ذریعے ایران کو طبی امداد بھی فراہم کی تھی۔ برطانوی حکومت نے وقتاً فوقتاً یہ وضاحت بھی کی ہے کہ وہ ایران پر سے پابندیاں اُٹھانے کے لئے بھی پُر عزم ہے اور امریکہ کو اس سلسلہ میں راضی کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے بلکہ ہم امریکہ کی طرف سے ایران پر بہت زیادہ دبائو ڈالنے کے بھی مخالف ہیں، ہم فرانس اور جرمنی کے ساتھ مل کر ایران سے ’’انسٹیکس‘‘ نامی میکنزم کو فعال کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں تاکہ ایران پر مالی لین دین پر پابندیوں کو نرم کر کے تجارتی تعلقات کو معمول پر لایا جا سکے۔

برطانیہ کی طرف سے بارہا فرانس اور جرمنی کا نام لے کر ایران سے تعلقات کی بات کرنا اس امر کی طرف بھی واضح اشارہ ہے کہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ کلی طور پر امریکہ کی ’جھولی‘ میں نہیں گرے گا، بلکہ یورپ کے دو مضبوط ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق طے کرے گا اور کسی قسم کی امریکی ڈکٹیشن نہیں لے گا، مستقبل میں اس قسم کی برطانوی پالیسی کا یقین اس لئے بھی کیا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کا یورپی یونین (بریگزٹ) سے باہر آنے کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ وہ مکمل طور پر اپنی مرضی سے اپنی پالیسیز بنائے اور ان پر عمل پیرا ہو سکے‘ اس کے ساتھ ساتھ اپنا آزادانہ تشخص بھی بحال کر سکے، برطانیہ خصوصاً گزشتہ دو سال کے دوران بارہا یہ بات دہرا چکا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ’’عدم اعتماد‘‘ کے ورثے کے باوجود ہمارے لئے ایران انتہائی اہم ملک ہے اور ہم اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتے، یاد رہے کہ 2011ء میں تہران میں مظاہرین کی طرف سے برطانوی سفارت خانے پر حملے کے بعد برطانیہ نے اپنا سفارتخانہ بند کر کے عملے کو واپس بلا لیا تھا لیکن پھر چار سال کی بندش کے بعد 2015ء میں اسے دوبارہ کھول دیا گیا تھا، اگرچہ ایران اور برطانیہ کے تعلقات کی ایک مشکل تاریخ رہی ہے لیکن آج برطانیہ یقیناً یہ سمجھتا ہے کہ کوئی ملک نہ تو تنہائی کا شکار ہونا چاہتا ہے اور نہ ہی باہمی تجارت کے ثمرات سے محروم رہنا اُس کی معیشت کے لئے مثبت اشارہ ہو گا۔

اس سلسلہ میں یہ صورتحال بھی انتہائی اہم ہے کہ اب امریکہ میں صدر ٹرمپ نہیں جوبائیڈن کی حکومت ہو گی اور یقینی طور پر بحیثیت مجموعی امریکہ کی طرف سے بھی جو عالمی پالیسیز تشکیل دی جائیں گی اُن میں بھی ہارڈ لائنز کے بجائے دیگر اقوام کے لئے قابل قبول ہونے کی گنجائش رکھی جائے گی لیکن برطانیہ کی طرف سے یہ بات حتمی سمجھی جا سکتی ہے کہ بریگزٹ کے بعد یہ ایک ’نیا برطانیہ‘ ہو گا جو یورپ، دنیا کے دیگر ممالک اور امریکہ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات آزادانہ حیثیت سے بنائے گا، اس کی ایک واضح مثال یوں ہے کہ جنوری 2020ء میں امریکہ کے شدید دبائو کے باوجود برطانیہ نے چینی کمپنی ’’ہواوے‘‘ کے فائیو جی نیٹ ورک کو کام کرنے کی اجازت دے دی تھی حالانکہ امریکہ کا پریشر تھا کہ ہواوے کو اس نظام سے بالکل باہر کر دیا جائے اور انٹرنیٹ کے حساس پرزے جو کور کہلاتے ہیں وہ بھی اسے فراہم نہ کئے جائیں لیکن برطانیہ نے امریکہ کا یہ مطالبہ سرے سے رد کر دیا تھا گو کہ اس پر بعض ضروری پابندیاں ضرور لگائی گئی تھیں حالانکہ کئی مغربی ممالک نے ہواوے پر امریکی دبائو کے تحت پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ یہ کمپنی گزشتہ پانچ سال میں ٹیلی کام کی مصنوعات اور آلات بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن چکی ہے۔

ایران کے علاوہ امریکہ چین کے ساتھ بھی تعلقات کے سلسلے میں برطانیہ سے ویسے ہی رویے کا خواہشمند ہے جیسا وہ ایران کے معاملہ میں برطانیہ سے چاہتا ہے لیکن برطانیہ نے چین کے ساتھ بھی اپنے تجارتی تعلقات آزادانہ اور اپنی ضروریات کے مطابق رکھ کر امریکہ کا دبائو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، گزشتہ دو دہائیوں میں چین برطانیہ تعلقات میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ 1999ء میں چین برطانوی مصنوعات درآمد کرنے والا 26واں بڑا ملک تھا اور اب اس کا چھٹا نمبر ہے۔ 2019ء میں دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون ریکارڈ سطح پر پہنچ چکا ہے۔ میری دانست میں تو برطانیہ کی اس قسم کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے اس میں پاکستان کے لئے بھی اہم اشارے موجود ہیں کہ آزاد و خود مختار ریاستیں دوسروں کی ڈکٹیشن لینے کی بجائے اپنے ملک اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے اپنی خارجی و داخلی پالیسیاں مرتب کرتی ہیں اور ان پالیسیوں میں تجارت اہم ترین ہوتی ہے، ملکوں کے مابین دوستی یا دشمنی کی حیثیت ثانوی یا دوسرے نمبر پر ہوتی ہے۔

تازہ ترین