• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت بیوقوفی کررہی ہے، نواز شریف کا آنا ممکن نہیں رہیگا، شاہد خاقان


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکےپروگرام ”جرگہ“میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ نوازشریف کی صحت ٹھیک ہے صرف وہ اپنے تین ہونے والے آپریشن کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب ہوں گے۔ 

نوازشریف کا معاملہ براڈشیٹ نے واضح کر دیا کہ بیس سال لگائے پر کچھ نہیں ملا۔حکومت بیوقوفی کر رہی ہے پاسپورٹ کینسل کر رہی ہے پھر تو آنا ممکن ہی نہیں رہے گا۔

استعفیٰ کا فیصلہ حتمی ہے اس کا ٹائم پی ڈی ایم کی لیڈرشپ طے کرے گی اس کے سب پابند ہوں گے۔نوازشریف کہتے ہیں کہ آئین کے اندر سب کے کردار متعین ہیں اس میں سب رہیں ہماری کسی سے لڑائی نہیں ہیں۔ 

جنرل مشرف کیس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ کیس سپریم کورٹ نے بنایا اٹارنی جنرل منیر ملک سے پوچھ سکتے ہیں انہوں نے کہا جناب اٹارنی جنرل صاحب وزیراعظم سے یہ پوچھیں کہ جنرل مشرف کے خلاف کیس آپ بنائیں گے یا ہم بنائیں گے اس سوال کا آئینی جواب صرف یہ تھا کہ حکومت ہی کیس کرے گی انتقام لینے کا مزاج نوازشریف کا نہیں ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید وہ کیس نہ بناتے ۔ 

آرمی چیف کی توسیع پر جو ووٹ دیا گیا اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ووٹ دیتی یا نہ دیتی بل پاس ہوجاتا مسلم لیگ کی طرف سے ووٹ کیوں دیا گیا یہ بات بھی کسی دن سامنے آجائے گی کہ کیا حقائق ہیں ہم نے ووٹ دیا اب ہم اس فیصلے کو اچھا سمجھیں برا سمجھیں فیصلہ ہوگیا۔

اس فیصلے میں اداروں کی عزت رکھی گئی ادارے نے اظہار کر دیا کہ توسیع ہونی ہے اظہار ہوگیا اب سپریم کورٹ نے کہا کہ پارلیمنٹ اس کی توثیق کرے یا بل کی ترمیم کرے جو بھی کرنا ہے اب ہاؤس کو تقسیم اس ایشو پر نہیں ہونا چاہیے تھا عسکری معاملات پر پارلیمان تقسیم نہیں ہونا چاہیے ۔

حکومت پر جو اداروں کا دست شفقت ہے وہ غیر آئینی ہے ضروری ہے اس کو اٹھا لیا جائے۔ سینیٹ کے حوالے سے پی ڈی ایم میں دو رائے تھیں اور یہ محسوس کیا گیا کہ سینیٹ الیکشن میں حصہ لینا بہتر ہے تو حصہ لیا جائے گاکیوں کہ ہم حکومت کو یہ موقع نہیں دینا چاہتے کہ وہ آئین کو مسخ کر دے یا قبضہ کرلے یا صوبائی حقوق کو ختم کر دے۔ 

ہمارا آئین کہتا ہے بیلٹنگ ہمیشہ خفیہ ہوتی ہے اس کے لیے آئینی ترمیم چاہیے ہوگی۔الیکشن کمیشن آئین میں خودمختار ہے عملی طور پر نہیں ہے میڈیا خودمختار ہونا چاہیے میں انہیں اثرات کی بات کر رہا ہوں ۔ 

الیکشن کمیشن کے فیصلوں میں بے پناہ تضاد ہے دوہرے معیار ہیں مسلم لیگ کے دو سینیٹر سوموٹو نوٹس لے کر سپریم کورٹ نے ڈی سیٹ کیے اب اسی الیکشن کمیشن کے سامنے بہت زیادہ ثبوت کے ساتھ کیس پڑے ہوئے ہیں آگے پیشرفت نہیں ہو رہی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے پنڈی کی بات کی تھی اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا آپ کو چائے پلا دیں گے بعد میں پتہ چلا وہ مولانا کے لیے ہی تھا سب کے لیے نہیں تھا ہمیں وہاں دعوت نہیں ہے۔پنڈی جانے کا فیصلہ پی ڈی ایم اجلاس میں کیا جائے گا جمہوری طور پر اصولی طو رپر پنڈ ی کی طرف مارچ نہیں ہونا چاہیے ۔

پیپلز پارٹی کی اگر ڈیل کرتی ہے تو کیا ڈیل کرے گی اور کیوں کرے گی ابھی تک پی ڈی ایم کے ہر فیصلے کی انہوں نے مکمل تائید بھی کی ہے پابندی بھی کی ہے مجھے یقین ہے آئندہ بھی پیپلز پارٹی فیصلوں کی تائید بھی کرے گی پابندی بھی کرے گی اور جو جماعت پی ڈی ایم کے فیصلوں سے انحراف کرے گی اپنا سیاسی نقصان کرے گی۔

نو کانفڈینس کا آپشن ہمیشہ ہوتا ہے مین نے ہمیشہ کہا ہے پاکستان کے نظام میں جو طریقہ ہے نو کانفڈینس کا اس کے اندر نو کانفڈینس کرنا ایک ناممکن کام ہے نو کانفڈینس اسی نظام کا حصہ بننا یہ بھی معقول بات نہیں ہے آصف زرداری کی رائے ہے لیکن پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں میں اس رائے کی سپورٹ نہیں دیکھی مسلم لیگ نون عوام کے دباؤ سے حکومت کرنا چاہتی ہے۔

نوازشریف کے خلاف ایک پیسہ کا ثبوت نہیں ملا تو کم سے کم چیئرمین نیب معذرت ہی کرلیں اگر کوئی ثبوت ملا ہے تو عوام کے سامنے رکھ دیں۔میں چاہتا ہوں نیب کو رکھا جائے اس کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ 

نیب کو چلنے دیں ہم بھگت چکے ہیں نیب اب ان لوگوں کو بھگتنا ہے جو براڈ شیٹ سے حصہ مانگ رہے تھے ۔ میں سوال کرتا ہوں ایم بیسی کے اکاؤنٹ میں تیس ملین پہنچا کیسے یہ ساری ملی بھگت ہے آج وزیروں کے نام آرہے ہیں۔

تازہ ترین