• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انجمن ترقی پسند مصنفین کےسیکرٹری جنرل سلیم راز صاحب کی حالیہ دنوں میں نئی کتاب ’یقین ‘ شائع ہوئی ہے ، مختلف موضوعات پر مشتمل اس کتاب میں سیکو لر ازم پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے،تاہم ہم اختصار پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں، آئیے دیکھتے ہیں اِس حوالے سے ان کا نقطہ نگاہ کیا ہے، لکھتے ہیں’’ پاکستان میں سیکولر اور سیکولرازم کا ترجمہ (عمداََ وقصداََ) غلط کیا جاتا ہے، اور ان الفاظ کو عموماً کفر، الحاد اور لادینیت کے معنی و مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ درست نہیں ہے۔دراصل Seculumلاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنٰی ’دنیا‘ ہے جو بعد میں Secularبنا یعنی ’دنیاوی‘... اس سے مراد وہ کام ہیں جن کا تعلق دنیا سے ہو، اور یہ اصطلاح ان لوگوں کیلئے استعمال ہوتی تھی جو دینی کاموںکے ساتھ ساتھ دنیاوی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے،معروف دانشور اور تاریخ دان سید سبط حسن نے اپنی کتاب نوید فکر میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے، وہ کہتے ہیں ’’قرون وسطیٰ میں رومن کیتھولک پادری دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے ایک وہ پادری جو کلیسائی ضابطوں کے تحت خانقاہوں میں رہتے تھے، دوسرے وہ پادری جو عام شہریوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے، کلیسا کی اصطلاح میں آخر الذکر کو ’’سیکولر‘‘ پادری کہا جاتا تھا،اور وہ تمام ادارے بھی سیکولر کہلاتے تھے جو کلیسا کے ماتحت نہ تھے ‘‘۔یعنی لفظ سیکولر لغوی اور اصطلاحی معنوں میں الحاد اور لادینیت کیلئے وضع نہیں ہوا ہے، انسائیکلوپیڈیا امریکہ نو کے مطابق’’سیکولرازم ایک اخلاقی نظام ہے جو کہ قدرتی اخلاق کے اصولوںپر قائم ہے اور الہامی مذہب یا مابعدالطبیعات سے جدا ہے‘‘۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی انگلش اردو ڈکشنری کے مطابق ’’سیکولرازم اس معاشرتی اور تعلیمی نظام کو کہا جاتا ہے جس کی اساس مذہب کی بجائے سائنس پر ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہب کی مداخلت کی گنجائش نہیں ہوتی۔یہ واضح ہو کہ سیکولرازم کی اصطلاح ( برطانوی اسکالر) جارج جیکب ہولی اوک (George J Holyokke)نے 1840میںوضع کی تھی، انہوں  نے تمام عمراظہار کی آزاد ی کی حمایت میں لکھا اور تقریریں کیں۔ اس اصطلاح کی بنیاد بھی یہی ہے کہ فکر، خیال، ضمیر اور رائے کی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے، یعنی سیکولرازم کے معنٰی اور مفہوم یہ ہوئے کہ ہر کسی کو اظہار خیال اور حق و صداقت کی تلاش کی مکمل آزادی ہو، خواہ اس کا تعلق اقتصادیات سے ہو یا سیاسیات سے، خواہ مذہب سے ہو یا ادبیات۔.. سید سبط حسن لکھتے ہیں کہ’’سیکولرازم ایک ایسے فلسفہ حیات کا نام ہے جو خردمندی اور شخصی آزادی کی تعلیم دیتا ہے اور تقلید و روایت پرستی کی جگہ عقل و علم کی اجتہادی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔‘‘
’’سیکولرازم کا اصل مفہوم‘‘ کے عنوان کے تحت دانشور اظہار منیر کہتے ہیں ’’اسلام میں یہ اصطلاح سب سے پہلے امام غزالی نے استعمال کی اور انہی معنوں میں استعمال کی جن معنوں میں یورپ کے عیسائی کلیسا نے استعمال کی تھی۔ امام غزالی نے فقیہوں اور متکلمین کیلئے ’علمائے دہر‘ کی اصطلاح استعمال کی کیونکہ وہ دنیا اور دنیاوی کاموں سے قطع تعلق نہیں کرتے تھےاور دینی امور کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور بھی انجام دیتے تھے۔ اسی طرح علمائے دین کی اصطلاح امام غزالی نے ان بزرگوں کے لئے استعمال کی جو دنیا اور دنیاوی کام چھوڑ کر فقط خدا کے ساتھ راز رکھتے تھے اور جو صوفیا اور اہل خانقاہ کہلاتے تھے‘‘۔اظہر منیر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ
’’آج کل یہ اصطلاح ان کاموں یا علوم کیلئے استعمال ہوتی ہے جن کا تعلق دنیا سے ہو۔ طبیعات، کیمیا اور ریاضی وغیرہ تمام سیکولر علوم کہلاتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق خالص دنیاوی امور کے ساتھ ہے اور کسی مذہب یا دین سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، اور کسی مذہب یا دین سے متصادم بھی نہیں۔ ادب اور فن میں سیکولر کا مفہوم یہ ہے کہ کسی عقیدے کی پابندی میں فن پارہ تخلیق نہ ہو اور سائنس میں اس کا مفہوم ہے کہ کسی مذہب یا عقیدے کے تابع ہوئے بغیر تحقیق و تجربے کئے جائیں اور ان تجربات و تحقیق کے نتیجے میں جو حقائق سامنے آجائیں انہیں درست تسلیم کیا جائے‘‘۔اسی طرح سیاسی معنوں میں’’سیکولر ریاست کا مطلب ایک ایسی ریاست ہوتی ہے جو کسی کے مذہب یا عقیدے میں مداخلت نہ کرے اور ملک کے تمام باشندوں کو ان کے اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت ہو‘‘۔
سیکولر ریاست کا تصور بھی کوئی اتفاق یا حادثہ نہ تھا، بلکہ وقت حالات کے تقاضوںاور خصوصاً ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوا، اس سلسلے میں تاریخ، سیاسیات اور سماجی علوم کے ماہرین اور ترقی پسند ادیبوں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ’’سیکولر ریاست کا تصور تھیوکریٹک ریاست یا تھیوکریسی کی ضد میں پیدا ہوا، تھیوکریٹک ریاست یا تھیوکریسی کا مطلب ہے ’پاپائی ریاست‘ اور پاپائیت کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ حکومت اور مذہب ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں، اور پھر یہ کہ حکومت کرنے کا حق مذہبی پیشوائوں کو ہی حاصل ہے‘‘۔ اسی تھیوکریسی نظریئے اور تھیوکریٹک ریاست کے جبر کا نتیجہ تھا کہ پانچویں صدی عیسوی سے لیکر پندرہویں صدی عیسوی تک جب یورپ پاپائیت یعنی مذہبی پیشوائوں کے اقتدار کے پنجے میں اسیر تھا کسی قسم کی ترقی نہیں ہوئی ۔ اس عہد میں کوئی سائنسی ایجاد بھی نہیں ہوئی،کیونکہ پیشوا (حکمران) نہ تو سائنسی تجربات کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور نہ ہی اس حوالے سے انسانیت کی فلاح و بہبود کے کام سے واقفیت رکھتے تھے اور نہ اس کی اجازت دیتے تھے ۔ اسی عہد میں  سب سے زیادہ مظالم سائنسدانوں اور فلسفیوں پر ہوئے،وجہ یہ تھی کہ مذہبی حکومتوں میں تجربات کرنا یا سائنسی تحقیق کرنا ایک بہت بڑا جرم اور گناہ تصور کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر سائنسدان گلیلیو پر اس ’جرم‘ میں ایک مذہبی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا کہ اس نے اس پرانے عقیدے کو رد کردیا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سائنسی طور پر اسے ثابت بھی کیا تھا، مذہبی عدالت نےلیکن فیصلہ دیا کہ گلیلیو نے زمین کو متحرک کہنے پر کفر کا ارتکاب کیا ہے اور اس جرم میں اسے موت کی سزا سنادی گئی۔ آج ساری دنیا گلیلیو کے قول کی صداقت کی قائل ہے کیونکہ اس واقعہ کے پانچ سو سال بعد سائنسی تحقیقات نے گلیلیو کےدعوے کی سچائی ثابت کردی ہے۔ چند برس قبل چرچ نے گلیلیو کے خلاف اپنا فتویٰ بھی واپس لے لیا اور گلیلیو سے بعداز مرگ معافی بھی مانگ لی۔ اسی سیکولر سوچ و فکر کے حوالے سے یورپ جس مسلمان فلسفی سے زیادہ متاثرہوا وہ ابن رشد تھے۔ ابن رشد کے اس فلسفہ (کہ سائنس اور مذہب دو جدا جدا صداقتیں ہیں) نے علم، آگہی، روشن خیالی اور مذہبی رواداری کے حق میں تحریکیں پیدا کیں جس کے نتیجے میں ظلم، بربریت اور جہالت کے اندھیرے مٹ گئے اور یورپ میں سیکولر ریاستیں قائم ہوئیں ، بعد میں یہی سیکولر ریاستیں یورپ کی فکری، سائنسی اور صنعتی ترقی کا سبب بنیں۔
آج جب ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں دنیا بہت آگے چلی گئی ہے، سائنس نے گلوب کے تاریک کونوںکو روشن کردیا ہے، خلا نوردی اور خلائی تسخیر نے فرسودہ عقیدوں کو شکست دے دی ہے اور ایٹم کے بعد کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے انسانی عظمت کے واضح ثبوت پیش کردیئے ہیں تو یہ سب کچھ سیکولر فکر اور رویے کے طفیل ہوا ہے۔ لہٰذا علم دشمنی کا رویہ ترک کرکے الفاظ و اصلاحات کو ان کے اپنے اصل معنٰی، مفہوم اور تاریخی پس منظر میں سمجھنا اور استعمال کرنا چاہئے‘‘۔
تازہ ترین