• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”ملک میں تبدیلی کے آثار تب نظر آئیں گے جب روڈ کے بیچوں بیچ کھڑی کی گئی دیوار کراچی گرائی جائے گی“۔ یہ جواب تھا بچوبھائی کا۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ انتخابات ہو چکے،حکومتیں بدل گئیں،کیا اب ملک میں تبدیلی آئے گی؟
کلفٹن میں بنے ہوئے بلاول ہاؤس کے سامنے سے ایک مصروف ترین روڈ گزرتا ہے اس روڈ کے دوسری جانب پچاس بلڈنگیں ہیں۔ ایک ایک بلڈنگ میں ایک سو سے زیادہ فلیٹ ہیں۔ پورے کے پورے روڈ پر دیوہیکل سیمنٹ، لوہے اور کنکریٹ کی سیسہ پلائی دیوار کھڑی کردی گئی ہے۔ روڈ کے دونوں جانب بیریئرز اور کمانڈوز کی چوکیاں بنائی گئی ہیں۔ کئی جگہ مورچے بنائے گئے ہیں ۔ پچھلے پانچ برسوں سے روڈ کے دوسری جانب رہنے والے ہزاروں لوگوں کے لئے روڈ پر گاڑی چلانا تو دور کی بات ہے پچاس بلڈنگوں کے باسی روڈ پر قدم نہیں رکھ سکتے۔ کئی جرنلسٹ اس دیوار کی تصویر لیتے ہوئے پکڑے گئے اور کیمروں سے محروم کر دیئے گئے۔ پچھلے برس سپریم کورٹ نے دیوار گرانے کے احکامات جاری کئے تھے۔ دیوار اپنی جگہ آج بھی موجود ہے۔ علاقہ مکینوں کے لئے نوگو ایریا بنا ہوا ہے۔ لوگوں نے دیوار کے اطراف علاقے کو پہلے مدر آف نوگو ایریا کا نام دیا تھا، بعد میں نام بدل کر علاقے کو نیا نام دیا گیا۔ فادر آف آل دی نو گو ایریاز۔ دیوار کو کچھ لوگ دیوار کر اچی کہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دیوار ایٹم بم پروف ہے۔ امریکہ میں دفاعی ادارے پینٹاگون کی دیواروں کی طرح دیوار کراچی ایٹمی اور نیو کلیئر میزائل پروف ہے یعنی ایٹمی میزائل بلاول ہاؤس کے سامنے سڑک پر کھڑی ہوئی دیوار کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔
ملک میں کہانیاں گھڑنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اگر الف لیلیٰ دوبارہ ازسرنو لکھنے کا ٹھیکہ پاکستانیوں کو دیا جائے تو وہ الف لیلیٰ میں لاکھوں داستانوں کا اضافہ کرتے رہیں گے۔ ان کہانیوں پر اعتبار کرنا آپ پر منحصر ہے۔ ایک کہانی کے مطابق آصف بھٹو زرداری نے لاہور میں جو محل بنوایا ہے اس میں سوئمنگ پول، ہیلی پیڈ، گھوڑے دوڑانے کے ٹریک اور کھیل کے میدان ہیں۔ یہ اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان بڑا ہی امیر ملک ہے، کئی امیروں کے پاس اس طرح کی نعمتوں سے مالا مال رہائشیں ہیں لیکن آصف بھٹو زرداری کے محل میں کچھ غیر معمولی ہے جو لاہور والے زرداری ہاؤس کو تمام محلوں پر فوقیت دیتا ہے۔ لاہور میں سیکڑوں ایکڑ پر محیط زرداری محل ایٹم بم پروف ہے، راکٹ اور میزائل پروف ہے، آسمانی بجلی پروف ہے، سیلاب پروف ہے، زلزلہ پروف ہے، عزرائیل کے لئے محل میں داخل ہونے کے تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں یعنی لاہور والا زرداری ہاؤس عزرائیل پروف ہے۔اس کہانی میں کہانی کار نے زرداری صاحب کا پورا نام آصف بھٹو زرداری لکھا ہے۔ وضاحت طلب کرنے پر کہانی کار نے کہا کہ بچوں کے نام اپنے والد کے نام سے منسوب ہوتے ہیں۔ بلاول زرداری اس وقت تک بلاول بھٹو زرداری نہیں کہلوا سکتا جب تک آصف زرداری اپنے نام میں بھی یہ ترمیم شامل نہ کرے، اب اس کے لئے لازمی ہو چکا ہے کہ اپنے لئے ناسہی، بلاول زرداری کی خاطر اپنے آپ کو آصف بھٹو زرداری کہلوانا شروع کردے تاکہ بلاول سینہ تان کر خود کو بلاول بھٹو زرداری کہلوائے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ بے نظیر بھٹو کے دادا سر شاہنواز بھٹو کی تمام املاک آصف زرداری کے کنٹرول میں آگئی ہے۔ بھٹو کی آبائی جاگیر اور زمینوں اور املاک میں آپ بھٹو بن کر گھومتے ہوئے اچھے لگیں گے، زرداری بن کر نہیں۔ یہ سب کہانی کار نے لکھا ہے۔ میں نے کہانی کا خلاصہ پیش کیا ہے۔
پچھلے پانچ برسوں میں آصف زرداری کی پیپلز پارٹی نے پاکستان میں منظم کرپشن کا جال بچھا دیا تھا۔ یہ میں نے نہیں ایک سینئر تجزیہ نگار نے کہا ہے جس کا نام نگار سلطانہ ہے۔ یہ کہانی مجھے نگار سلطانہ نے کراچی میں بلاول ہاؤس کے سامنے سڑک پر بنی ہوئی ایٹم بم پروف دیوار کے قریب ایک چائنیز ریسٹورنٹ میں جھینگے کھلاتے ہوئے بتائی تھی۔ نگار سلطانہ سینئر تجزیہ نگار ہے لیکن کسی زاویہ سے وہ سینئر نہیں لگتی۔ مختلف ٹیلیویژن چینلز کے کئی ہونہار پروڈیوسر سینئر تجزیہ نگار کی اصلی سنیارٹی دیکھنے کے بعد دلبرداشتہ ہو کر جنگل اور بیابانوں کا رخ کر چکے ہیں۔ سینئر تجزیہ نگار کے مطابق افہام و تفہیم کے نام پر آصف زرداری نے ملک میں مل جل کر لوٹ مار اور کھانے پینے کے کلچر کی داغ بیل ڈالی۔ ”تو کھا، مجھے بھی کھانے دے“ اور ”خود کھاؤ، دوسروں کو بھی کھانے دو“۔ چھوٹے بڑے کارندے کی زبان پر تھا۔ ملک دیوالیہ ہو کر رہ گیا۔ آصف زرداری کی پانچ سالہ حکومت بیرونی امدادوں پر چلتی رہی اور ملک متوازی اکانومی پر چلتا رہا۔
سب سے زیادہ تباہی سندھ کی ہوتی رہی۔ پڑھائی پاتال میں جاگری۔ لوٹ مار اور چھینا جھپٹی عروج پر جا پہنچی۔ کسانوں، دیہاتیوں اور غریبوں پر سرداروں، وڈیروں، پیروں کے مظالم کی انتہا نہ تھی۔ دوسرے مذاہب کی لڑکیوں کو زبردستی عقیدہ بدلنے پر مجبور کرنا روز کا معمول بن چکا تھا۔ سرداروں اور پیروں کے پالتو دھاڑیل یعنی ڈاکو رہزن دہشت کی علامت بن چکے تھے۔ ایسی حکومت کو تین صوبوں بلوچستان، پنجاب اور پختونخوا نے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ سب تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ زرداری کی پیپلزپارٹی کو سب سے زیادہ عبرت ناک شکست سندھ میں ملے گی مگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ جیتنے والے ایم پی اے اور ایم این اے الیکشن سے پہلے اپنی اپنی کانسٹیٹوئنسی میں نہیں جا سکتے تھے۔ ان کو توے اور جوتے دکھائے جاتے تھے جیتنے کے بعد بھی وہ اپنے اپنے علاقے میں نہیں جا سکتے! اندرون سندھ سراپا احتجاج ہے۔ ایسے میں زرداری کا کیا ہو گا ! کوئی نہیں جانتا۔ ڈکٹیٹر مشرف گارڈ آف آنر لیکر روانہ ہوا تھا، زرداری کیسے روانہ ہوگا!؟
زرداری نے اپنے بچاؤ اور حفاظت کے لئے ایم کیو ایم کو آواز دی ہے۔ ایم کیو ایم شہروں تک زرداری کو حفاظت کا یقین دلا سکتی ہے، دیہات Rural سندھ میں نہیں۔ یہ تو تھا سینئر تجزیہ نگار ، نگار سلطانہ کا تجزیہ۔ اب سینئے بچو بھائی کی بات۔
بچو بھائی کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں عہدے یعنی صدارت سے سبکدوش ہونے کے بعد زرداری کے خلاف بند مقدموں کے فائلیں پھر سے کھولی جائیں گی لیکن سب سے بڑا اور جان لیوا مقدمہ زرداری کے خلاف بنے گا، بے نظیر کے قتل کا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ قتل کے کیس میں پوسٹ مارٹم کے بغیر تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی، زرداری نے کیوں بے نظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم ہونے نہیں دیا! یہ بچوں بھائی کا کہنا ہے مجھے فقیر کا نہیں۔
تازہ ترین