• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیرِ تعلیم و کابینہ کی ادارہ جاتی اصلاحات کمیٹی کے سربراہ شفقت محمود نے طرز حکمرانی کو بہتر بنانے اور عوام کی آسانی کے لئے سول سروس اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابینہ کی قائم کردہ ادارہ جاتی ریفارمز کی کمیٹی میں سول سروس ریفارمز کے چھ حصوں پر فیصلے کیے گئے۔ اِس میں سرکاری ملازمین کی ترقی، ریٹائرڈ کرنے کے اختیار، ڈسپلنری رولز میں ترامیم، ایم پی اسکیل اور سرکاری افسران کی روٹیشن پالیسی پر بھی تفصیلی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ادارہ جاتی اصلاحات میں پہلی بار تقرری کی مجاز اتھارٹی کا تعین کیا گیا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) یا وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں انکوائری والے ملازمین کی ترقی کو مؤخر کیا جائے گا، صوبوں میں کام کرنے والے افسران کی انکوائری اب اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھی کر سکتی ہے جبکہ پنشن ریفارمز کے بارے میں تجاویز زیر غور ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کا نظام چلانے میں سول بیوروکریسی کا کردار بنیادی اور اہم ترین ہے۔ برصغیر میں اِس کی ابتدا برطانوی حکومت کے دوران 1885میں ہوئی، جس میں افسران کو کسی دوسری ملازمت کے مقابلے میں مختلف نوع کے فرائض، حقوق اور وسیع تر اختیارات حاصل تھے، ہندوستان میں انگریز کی ڈھائی سو سالہ استبدادی حکمرانی بلاشبہ اسی بیوروکریسی کی مرہونِ منت تھی۔ ہمارے ہاں اگر بیوروکریسی کی بےلگامی کا واویلا کیا جاتا ہے تو اِس کی بنیادی وجہ اِس حقیقت کو فراموش کیے رکھنا ہے کہ دراصل تمام تر ریاستی ادارے اِس قانون سازی پر عملدرآمد کے پابند ہیں جو پارلیمنٹ میں کی جاتی ہے۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ سول سروس کا ڈھانچے بھی تبدیلیوں کا متقاضی ہے اور اس ضمن میں حکومتی اقدامات اس لئے بھی احسن ہیں کہ کابینہ کمیٹی کی طرف سے جو طریقہ کار بروئے کار لایا گیا ہے، وہ سہل بھی ہے اور پاکستان میں قابلِ عمل بھی۔ امید ہے کہ یہ کاوش بہتر نتائج سامنے لائے گی۔

تازہ ترین