پاکستان کی تشکیل ’’ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘ کی عملی تفسیر تھی۔ 1857ء میں شروع ہونے والی جدوجہد آزادی اگست 1947ء کو فاتحانہ انداز سے انجام پزیر ہوئی، مگر اس سفر میں لاکھوں انسانوں کو نئی مسلم مملکت تک پہنچنے کے لیے آگ و خون کا ہولناک دریا عبور کرنا پڑا۔ ایک نئی صبح، نئی سحر، نئی منزل، نئی روشنی سے فیض یاب ہونے، غلامی کے درد بھرے ماضی کو بھلانے، ترقی، خوش حالی، بلندی کی نئی راہوں کے حصول کی خواہشوں، امیدوں اور آدرشوں کے ساتھ منزل پر پہنچنے کے پر صعوبت، اذیت ناک، تکلیف دہ اور طویل سفر میں جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کے بانی، میر صحافت، میر خلیل الرحمان بھی اس ہر اول دستے میں شامل تھے جس نے ذرائع ابلاغ کے توسط سے ہندوستان کی آزادی کی فیصلہ کن جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔
برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ برطانوی حکم رانوں اور ہندوئوں کے سلوک نے میر خلیل الرحمان کو ہمیشہ مضطرب رکھا تھا۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے محاذ پر مورچہ سنبھالنے کا عزم کیا اور دہلی کے گرم سیاسی ماحول میں ایک پیسے کے اخبار سے اپنی کام یابی کی بنیاد رکھی اور روزنامہ ’’جنگ‘‘ اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے نصف صدی تک لوگوں کی ترجمانی کی۔ ان کے خیال کو حرفوں کی قوت بخشی اور وقت کی نبض تھام کر وہ نسخے تجویز کیے جنہوں نے ملک و ملت کی بقاء و استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اقلیم صحافت کے بے تاج بادشاہ، میر خلیل الرحمان نے جنگ اخبار کے ذریعے ایک طرف تحریک پاکستان کو آگے بڑھایا، اسے کام یابی سے ہم کنار ہونے میں مدد دی اور دوسری طرف ان مقاصد کو ہمیشہ عزیز رکھا جس کی بنیاد پر یہ ملک وجود میں آیا۔ اسی لیے اسلام، اردو اور مسلم امہ ہمیشہ جنگ کی نظریاتی پالیسی میں شامل رہے ہیں۔ جنگ اخبار نے اردو صحافت کو ایک نیا رخ، ایک نیا رنگ اور نئی وسعت دی۔ بلا شبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج اردو صحافت جس بین الاقوامی معیار پر نظر آتی ہے، اس میں سب سے اہم کردار جنگ اخبار ہی نے ادا کیا ہے اور اس کا سہرا، میر صحافت کے سر جاتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میر صاحب نے روزنامہ جنگ کو ایک گروپ آف پبلی کیشنز کی شکل دی۔
وہ صحافت کو کام یابی کے نئے نئے افق تک پہنچانے میں ایک مسلمہ ماہر شخصیت تھے۔ یہ ان کی غیر معمولی ذہانت، تجربہ اور استقامت تھی کہ وہ اپنے اخبارات کو عوامی مقبولیت کی انتہا تک پہنچاتے، عوام کے ذوق مطالعہ کو پرکھتے، جدید اور قدیم صحافت، پرانی اور نئی نسل کے تقاضوں کو سمو کر تازہ بہ تازہ رکھتے۔ انہوں نے خبروں کی تیز فراہمی کے ساتھ اس کو پاکستان اور بیرون ممالک سے جدید ذرائع خبر رساں سے حاصل کرکے سادہ اور رنگین تصاویر کا مجموعہ بھی بنایا اوردینی و قومی موضوعات پر خاص ایڈیشن شائع کرکے پاکستان کی صحافت میں خصوصی امتیاز بھی حاصل کیا، نہ صرف یہ بلکہ اردو صحافت کی تاریخ گو کہ پرانی ہے مگر اسے جدید فنی خطوط پر استوار کرنے اور جدید ترین ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا سہرا بھی میر صاحب ہی کے سر جاتا ہے۔
وہ پاکستان کی دنیا ئے صحافت میں پہلے فرد ہیں، جنہوں نے تیز رفتار پرنٹنگ مشینیں متعارف کرائیں۔ اردو اخبارات کو نوری نستعلیق کی طباعت کا حسن عطا کیا۔ سست روی کو برق رفتاری میں تبدیل کیا۔ میر صاحب کبھی خالی نہیں بیٹھتے تھے،وہ ایک مکمل صحافی تھے انہیں سب سے سرگرم اور فعال صحافی سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے پاکستان کو نہ جانے کتنے اخبار نویس دیے۔
ان میں کالم نویس بھی ہیں، مضمون نگار بھی اور تجزیہ نگار بھی۔ یوں وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ بھی تھے۔ اگر صحافت کو مملکت کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے تو میر صاحب نے اپنی شبانہ روز محنت اور لگن سے اپنے آپ کو پاکستان میں نیوز پیپر میڈیا کا پہلا ستون ثاثت کیا۔ ان کی ترقی کے راز میں ان کا صبر و تحمل بہت نمایاں رہا۔بلاشبہ میر صاحب صحافت کی دنیا میں ایک ’’لیجنڈ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں اور لیجنڈ کبھی ’’مرحوم‘‘ نہیں ہوتے ، وہ زندگی بھر بہت ہی مشکل کاموں کی محبت میں گرفتار اور مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔
یہ ان کی جدوجہد اور انتھک محنت ہی تو تھی، جس سے انہوں نے ابلاغ عامہ کے ایک انتہائی موثر ذریعہ کی ایک زبردست ’’ایمپائر‘‘ بنائی۔یوں تو میر صاحب کی بڑائی اور عظمت کا آج بھی سارا جہاں معترف ہےاور یقین ہے، مورخ کل بھی ان کے مقام و مرتبہ کا تعین کرنے میں غلطی نہیں کرے گا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ادارے اور اس کے بانی کے بارے میں سب سے زیادہ معتبر رائے شاید اس گھرانے (جنگ گروپ) کے ارکان ہی کی قرار پائے گی، بالخصوص اس وجہ سے کہ جنگ کے کارکنوں کی بہت بڑی تعدادنے زندگی اور اپنے پیشے کی بیش تر عملی حقیقتوں کا ادراک اسی ادارے میں کیا۔میر صاحب 25 جنوری 1992ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔ آج ان کی برسی کے موقع پرشمس حنفی کی میرصاحب کے حوالے سے کچھ یادیں، کچھ باتیں سپرد قلم ہیں۔
میر صاحب کے ساتھ کام کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ وہ فولادی اعصاب کے آدمی تھے، وہی آدمی ان کے ساتھ چل سکتا تھا جو تُند و تیز ہوائوں میں قدم زمین پر گاڑ کر کھڑا رہ سکتا ہو۔ یہ بات میں نے ’’جنگ‘‘ میں تقرری کیلئے اپنے انٹرویو میں سمجھ لی تھی، ان کے انٹرویو لینے کا انداز بڑا عجیب و غریب تھا، وہ خود کو اس طریقے سے شامل کرتے کہ سب کچھ اُگلوا لیتے تھے، ان سے غلط بیانی کرنا بڑا مشکل تھا۔
میرے ایک برادر نسبتی جہانگیر چغتائی کافی عرصے سے میر صاحب کے انشورنس کے معاملات دیکھ رہے تھے ان سے انہوں نے کہا کہ میرا کام بہت بڑھ گیا ہے کوئی آدمی دلوائو میر صاحب سے جب میری پہلی نشست ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کو ایک آدمی چاہئے تھا میں حاضر ہوں۔ برجستہ میر صاحب نے کہا ’’بھئی مجھے تو آدمی چاہئے تھا‘‘ چونکہ اس وقت میں ان کا ملازم نہیں تھا بڑی بے تکلّفی سے باتیں ہوئیں میں نے جواب دیا۔ ’’میں کوشش کروں گا یہ ثابت کرنے کی کہ میں آدمی ہوں ویسے واقعی میں ہوں نہیں شاید آپ کے ساتھ کام کر کے بن جائوں۔‘‘ بڑے محظوظ ہوئے اور مسکرا کر بٹھا لیا اور پھر تین مہینے کا طویل انٹرویو ہوا۔
ہفتے میں تین چار دفعہ انٹرویو لے کر گھر واپس کر دیا کرتے اس دوران مجھے مختلف نوعیت کے مشکل ترین کام دیئے جو میں ان کے صوفہ پر بیٹھ کر کرتا رہا۔ غلطی میری تھی کہ میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ خوب پرکھ کر انتخاب کیجئے گا۔ میں حیران تھا کہ وہ صبح سے رات تک مسلسل کام کرتے رہتے تھے، صبح دفتر آنے سے پہلے گھر پر ہی ایک دِن پہلے اور اس روز کے تقریباً سارے ہی اخبارات کا مطالعہ کر کے آتے تھے۔ یہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ صبح ہی سے اپنی لائبریری میں چلے جایا کرتے تھے۔ ان کے دفتر پہنچتے ہی گویا اسٹاف میں کرنٹ دوڑ جایا کرتا تھا۔
مستعدی اور انہماک کا جو منظر جنگ اخبار کے دفتر میں دیکھنے میں آیا کم از کم میں نے کہیں نہیں دیکھا۔ میر صاحب دفتر پہنچتے ہی ہر شعبہ کے متعلقہ آفیسر کو بُلایا کرتے اور اخبار سامنے رکھ کر فرداً فرداً آج کی خامیوں کی نشاندہی کرتے کل کیلئے ہدایات جاری کرتے ’’بریفنگ‘‘ کرنا ان کا معمول تھا اور اسی ’’بریفنگ‘‘ کی روشنی میں ہر شعبہ کام کرتا اور اسی بریفنگ نے میر صاحب کے جنگ کو ملک کے سب سے بڑے اشاعتی اور ادارتی ادارے میں تبدیل کر دیا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر اسٹاف ممبر کی میز کے سامنے بیٹھے ہیں۔
وقفہ وقفہ سے افسران کو میر صاحب کی طرف خود اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی پرچیاں ملتی رہتی تھیں جن پر واضح ہدایات دی جایا کرتی تھیں۔ میر صاحب کے طریقۂ کار نے اخبار جنگ کو ایک ایسے بڑے کالج میں تبدیل کر دیا تھا جس کے وہ خود ہی پرنسپل اور خود ہی پروفیسر تھے۔ ان کو ہر مضمون پر مکمل دسترس حاصل تھی اور ایسی دسترس کہ ان کو سُن کر آدمی دَنگ رہ جائے۔ صلاحیت اور شوق اللہ کی دین ہے جو میر صاحب کو بدرجۂ اتم ملی تھی۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میر صاحب کے اس کالج میں ضرور داخلہ لوں گا لہٰذا ان کی کسوٹی پر پورا اُترنے میں تین ماہ تک انتھک محنت اور مشقت سے گزرا جس کی وہ خود نگرانی کررہے تھے۔
غالباً وہ میرے اعصاب کو بھی آزما رہے تھے۔ انہوں نے مجھے اپنے دُوسرے سینئر افسروں سے ملوانا شروع کر دیا تھا جس سے میں سمجھ گیا تھا کہ وہ مجھے رکھنے والے ہیں ایک بڑے سینئر ڈائریکٹر نے چائے پیش کرتے ہوئے مجھ سے کہا ’’آپ کی بڑی تعریف سُنی ہے لیکن یہ بھی سُنا ہے کہ آپ ’’کریک‘‘ ہیں۔ اگر آپ اَکڑ کر چلنا چھوڑ دیں تو چل جائیں گے۔‘‘ مجھے پتہ چلا کہ میر صاحب کے کان میں بھی یہ بات ڈالی گئی۔ جس پر انہوں نے کہا کہ ’’میں نہیں دیکھتا کہ آدمی کیسے چلتا ہے، کیسے بیٹھتا ،کیسے اُٹھتا ہے، کیا پہنتا، کیا نہیں پہنتا، میں یہ دیکھتا ہوں کہ وہ ’’جنگ‘‘ کیلئے کارآمد ہے یا نہیں۔‘‘ اِسی اُصول پر وہ ہمیشہ کاربند رہے۔
لہٰذا ’’جنگ‘‘ میں کام کرنے والے خصوصاً صحافیوں کے متعلق انہوں نے کبھی کوئی فرق نہیں رکھا کہ کون کس سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ RIGHTIST ہے یا LEFTIST ایک دفعہ ایک صحافی کی سخت شکایت آئی تو انہوں نے وہ کیس میرے پاس بھیج دیا میں بڑے طمطراق سے ان کے پاس گیا اور تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ آدمی فلاں پارٹی سے تعلق رکھتا ہے انہوں نے کہا کہ مجھے یہ نہ بتایئے کہ وہ کس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے یہ بتایئے کہ کیا وہ ’’دہشت گرد‘‘ ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں لیکن ہو بھی سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کوئی دہشت گرد بنے یا نہ بنے مجھے آپ سے خطرہ کہ آپ دہشت گرد نہ بن جائیں وہ جو پچھلے ہفتہ آپ نے نیچے ایک غریب کو دُھنا تھا وہ دہشت گردی نہیں تو کیا ہے؟ (ایک چور کو پکڑ کر پٹائی کی تھی جو دفتر کی گاڑیوں کے شیشے وغیرہ نکال لیتا تھا) میر صاحب کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ اگر کوئی شکایت کرتا تو آمنے سامنے بُلا لیا کرتے۔اس وجہ سے کوئی اُن کے پاس شکایت لے کر نہیں جاتا۔
میر صاحب گو کہ اُردو کی شخصیت تھے لیکن انگریزی اتنی خوبصورت لکھتے تھے کہ بڑے بڑے انگریزی داں بغلیں جھانکا کرتے، مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے خلاف پوری دُنیا میں غل مچ رہا تھا کہ پاکستان میں صحافت پر سخت پابندیاں عائد ہیں تو میر صاحب بڑے جُزبُز ہوا کرتے اور کہتے کہ یہ انگلش میڈیا ہمارے ملک کو بڑا بدنام کر رہا ہے یہ دُرست ہے کہ صحافت پر کچھ پابندیاں ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ جیسا کہ بیرونی ممالک نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ میر صاحب انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ لندن کے پاکستان کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے پاکستان کے مخالفین نے بھڑکا دیا اور انسٹیٹیوٹ (IPI) پاکستان کے خلاف ایک ریزولیشن لانے پر تُل گئی جس کیلئے انہوں نے ایک اجلاس طلب کر لیا۔
میر صاحب چونکہ چیئرمین بھی تھے ان کو مدعو کیا گیا کہ وہ اس موضوع پر آ کر تقریر کریں۔ خیال یہ تھا کہ میر صاحب بھی سب کی طرح پاکستان کے خلاف ہی بولیں گے۔ اس وقت کی ہماری گورنمنٹ بھی پریشان تھی کہ اتنے بڑے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر تقریباً سارے ہی ممالک پاکستان کے خلاف بات کر کے ریزولیشن پاس کر کے سخت بدنام کریں گے لیکن ہوا یوں کہ میر صاحب نے وہاں جا کر تقریر کی اور پاکستان کے خلاف ہونے والا ریزولیشن تہس نہس کر دیا ان کی یہ تقریر انگریزی میں تھی اور اس قدر جامع دلائل اور ٹھوس نکات پر مبنی تھی کہ سارے مخالفین مُنہ لٹکا کر رہ گئے۔ پاکستان کے خلاف IPI کا ریزولیشن پاس نہ ہو سکا اور ساری دُنیا میں رپورٹنگ ہوئی یہ بڑا جرأت مندانہ قدم تھا جبکہ میر صاحب دُنیا کے سارے مخالفین میں تنہا تھے اور وہاں پاکستان کے خلاف ریزولیشن پاس نہ ہو سکا۔
میر صاحب نے انگریزوں کو اُردو پڑھائی اور سکھائی
میر صاحب پانچ چھ سال تک خاموشی سے ’’جنگ‘‘ میں سائنٹفک خطوط پر تبدیلی لانے کیلئے کام کرتے رہے۔ یہ کام کتابت کو کمپیوٹر پر لانا تھا، یعنی جو کتابت خوشنویس ہاتھوں سے کیا کرتے اس کو ’’لیزر‘‘ پر لانا تھا۔ یہ بڑا ہی کٹھن، صبر آزما اور رسکی کام تھا چونکہ سارا کمپیوٹر اور ’’لیزرکامپ‘‘ انگریزی میں رائج تھا اور انگریز اُردو سے نابلد تھے۔ مونوٹائپ کارپوریشن لندن سے رابطہ کے بعد میر صاحب نے ان لوگوں کو بُلایا اور اس پروجیکٹ پر کام کرنے کیلئے کہا، ویسے بھی وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں کوئی ادارہ یا اخبار اس پروجیکٹ کا آرڈر دے۔ میر صاحب جانتے تھے کہ اگر یہ سسٹم ناکام ہو گیا تو ان کو کروڑوں روپے کا نقصان اُٹھانا پڑے گا اور اگر کامیاب ہو گیا تو پورے ایشیا میں کارپوریشن کا بزنس دس گنا ہو جائے گا اور ’’اُردو‘‘ میں انقلاب آ جائے گا۔ ایسا ہی ہوا ۔
میر صاحب نے یہ کام ’’جنگ‘‘ لاہور کے اجراء پر اور پھر ’’جنگ‘‘ کراچی اور راولپنڈی میں سرانجام دیا، لہٰذا میر صاحب کے بعد دُوسرے اخبارات نے ہندوستان اور پاکستان دونوں میں اس سسٹم کو متعارف کرایا ۔ یہ میر صاحب کی ہی خشت اوّل ہے جس نے پاکستان اور دیگر ممالک میں اُردو کمپیوٹر اور کمپوزنگ کے ذریعہ اُردو میں انقلاب بپا کر دیا۔ اُردو کی اس سے بڑی خدمت کیا ہو سکتی ہے؟ انگریز اس سلسلہ میں جب لندن سے پہلی بار کراچی آ کر میر صاحب سے ملے تو انہوں نے کہا کہ ان کو موجودہ کتابت کا طریقۂ کار دکھایا جائے۔ میر صاحب نے مجھے بُلایا اور کہا کہ ان لوگوں کو کتابت سیکشن لے جایئے۔ جب میں ان انگریزوں کو ’’جنگ‘‘ کے کتابت سیکشن لے گیا تو خوشنویس حضرات روایتی انداز میں تختوں پر بیٹھے گھٹنوں پر گتّے رکھ کر نِبوں کے قلم سے بٹر پیپر پر کتابت کر رہے تھے۔ سامنے کالی روشنائی کے مختلف سائز کے قلم سجے ہوئے تھے ۔چھوٹا سا ڈیسک ہر ایک خوشنویس کے سامنے رکھا تھا ۔
انگریز حیرت و استعجاب سے جُھک جُھک کر ہمارے خوشنیوسوں کی کتابت کو دیکھ رہے اور کہہ رہے تھے کہ کتنا خوبصورت ہے۔ کتنا حیرت انگیز ہے۔ یہ لوگ ہاتھوں سے وہ کام کر رہے ہیں جو ہم کبھی بھی نہیں کر سکتے۔انہوں نے تقریباً ایک گھنٹہ گزارا میر صاحب نے ان لوگوں کی تربیت کی اور اُردو پڑھانا شروع کی۔ ان کو نوری لغات دے دی گئیں کہ اس کو لیزر کامپ یعنی کمپیوٹر کتابت کرنا ہے لیکن قدم قدم اور لفظ لفظ پر میر صاحب کی ہدایت لینا تھی لیکن یہ بات بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ مغربی دُنیا نے مجموعی طور پر ہر زبان پر قابو پایا اسی طرح اُردو کمپیوٹر لیزرکامپ کے معاملہ میں یہ کارنامہ کر دکھایا کہ جس زبان کو پڑھ نہیں سکتے، سمجھ نہیں سکتے اس کو بغیر الفاظ کے معنی سمجھے پوری لغت کو اُردو کتابت میں تبدیل کر کے کمپیوٹ کر ڈالا۔
میر صاحب کی بذلہ سنجی
میر صاحب کی تنبیہہ کا انداز بہت خوبصورت تھا ان کا کوئی جملہ جس میں خواہ اظہار ناراضگی ہو ،اصلاح سے عاری نہیں ہوتا۔ وہ کسی بھی اسٹاف ممبر سے بات کرتے کرتے بھانپ لیا کرتے کہ کس حد تک ان کے سامنے بیٹھے ہوئے آدمی نے اَثر لیا ہے۔ کہیں اس کو انہوں نے ہرٹ تو نہیں کر دیا۔ اگر وہ ایسا محسوس کرتے تو اپنا لہجہ بدل دیتے۔ ان کا انداز تخاطب محبت، شفقت، نصیحت اور تنبیہہ کے ساتھ کچھ اس طرح ہوتا جیسے کہ وہ حقیقتاً باپ یا بھائی کا درجہ رکھتے ہوں وہ کہا بھی کرتے کہ ’’جنگ‘‘ میری اولاد ہے۔ اسٹاف کی ایک تقریب میں جس کے وہ مہمان خصوصی تھے ایک ممبر واحد بن ہاشم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج اس تقریب میں نہ کوئی مہمان ہے نہ کوئی مہمان نواز، آج ہمارے درمیان میر صاحب تشریف فرما ہیں جو ہمارے خاندان کے سربراہ ہیں، جنگ ایک خاندان کا نام ہے‘‘ میر صاحب کی شخصیت سے متعلق اس سے بہتر کوئی تعریف نہیں کی جا سکتی۔
اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنگ گروپ کا اسٹاف ان سے کتنی والہانہ محبت کرتا تھا۔ میر صاحب نے میرے سپرد ایک کام کیا کہ میں ان کی ڈاک دیکھا کروں اور خبریں نکال کر ایڈیٹوریل روم میں بھیج دیا کروں، کام دلچسپ تھا۔ کچھ دنوں بعد میر صاحب نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ ’’خبریں‘‘ کہاں ہیں؟ مجھے تو نظر نہیں آتیں۔ میں نے جواب دیا کہ قابل اشاعت خبریں میں متعلقہ ایڈیٹر کو بھیج دیتا ہوں اور ناقابل اشاعت خبروں کا بنڈل آپ کو بھیج دیتا ہوں۔ بہت ہنسے اور برابر بیٹھے ہوئے ایک آفیسر سے کہا ’’بھئی یہ حنفی صاحب ہیں انہوں نے میرا کام سنبھال لیا ہے میں ناقابل اشاعت خبروں کا ایڈیٹر ہوگیا ہوں اور یہ قابل اشاعت خبروں کے ایڈیٹر ہوگئے ہیں۔
رحم دلی اور سخاوت
بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے میر صاحب کتنے بامروّت، سخی اور رحم دل تھے، وہ جائز خرچ خوب کرتے تھے اور ناجائز اور غیرضروری خرچ سے ہاتھ روکتے تھے ،جو بھی خرچ وہ کسی ادارے یا فرد کے لئے کرتے تھے ،ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو معلوم نہ ہوتا۔ میرے پاس وہ ریکارڈ موجود ہے جس میں میر صاحب ناداروں، بیوائوں، یتیموں، یتم خانوں اور فلاحی اداروں کی خاموشی سے مدد فرماتے۔
قابل مثال کردار کی بات یہ ہے کہ ایک دوسرے اخبار کے صحافی کی بیوہ نے میر صاحب کو خط لکھا کہ اس کے بچوں کی تعلیم اور دیگر اخراجات کیلئے کچھ مدد کی جائے۔ اس مرحوم صحافی نے اپنی زندگی میں میر صاحب کے خلاف بہت کچھ لکھا۔ رمضان کا مہینہ تھا میر صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ خود اس بیوہ کے گھر جائیں۔ میں گیا اور میر صاحب کی طرف سے ایک خطیر رقم پہنچا دی نہ صرف یہ بلکہ ہر عید بقرعید پر آپ بیوہ کے بچوں کا بطور خاص خیال فرماتے۔
طویل تجربہ
میں اکثر ان سے کوئی سوال کرتا تو وہ بڑی تفصیل سے جواب دیا کرتے بلا شک و شبہ وہ ’’استاد‘‘ کا درجہ رکھتے تھے اور اسی طرح سمجھایا کرتے۔ اکثر چھٹی کے دن یا رات کو دیر سے خبر ملتی کہ پی آئی اے سے ایسی کسی خبر یا فوٹو کا پیکٹ آیا ہوا ہے تو وہ خود ایئرپورٹ پہنچ جایا کرتے تاکہ سب سے پہلے جنگ میں چھپے حالانکہ میر صاحب کو وسائل اور ذرائع اللہ نے اتنے دیئے تھے کہ انہیں خود کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بیماری کے دوران لندن آپریشن کیلئے جانے سے ایک دن قبل تک 102 بخار میں دفتر میں کام کرنے آئے۔ یہ میری ان کی آخری ملاقات تھی جو 9؍جنوری 1992 کو جمعرات کے دن دفتر میں ہوئی اور رات کو دس بجے تک اسی بخار میں کام کرتے رہے۔ بہت کہا کہ میر صاحب یہ آپ کیا کررہے ہیں۔
گھر جاکر آرام کیجئے صبح آپ کو جانا ہے لیکن وہ نہیں سنتے تھے البتہ کہتے ضرور تھے کہ ابھی جاتا ہوں ادھر بیگم میر خلیل الرحمن کا بار بار ٹیلیفون آرہا تھا آپ تھوڑی دیر کا کہہ کر گئے جلدی گھر آئیے دوا کا ٹائم ہوگیا ہے ڈاکٹر نے انتہائی پابندی کیلئے زور دیا ہے لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ کام کے معاملہ میں وہ صحت تو کیا اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آخری قطرہ تک ’’جنگ‘‘ کیلئے خشک کردیا۔
اسے قسمت نہیں تو کیا کہیں گے
کہتے ہیں عمل اور پیہم سے بہت کچھ بنتا ہے۔ تدبیر کے ساتھ تقدیر کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ میر صاحب کے بارے میں صاحب فہم و فراست کہنا اور مدبر قرار دینا تو عمل کی بات ہے، لیکن مقدر کو کیا کہیں گے، جو میر صاحب کا ساتھ دینا تھا۔اس ضمن میں صرف ایک واقعہ ملاحظہ کیجیے۔ 57ء میں جب شپ یارڈ کی تعمیر شرو ع ہونے اور سنگ بنیاد رکھا جانے لگا تو اس کی بنیادوں میں پاکستان کی معاشرت اور دیگر شعبہ حیات کی ایک ایک چیز بہ طور نمونہ رکھی گئی، اُس وقت اخبار بھی رکھنے کی تحریک ہوئی، چناں چہ ملک سے نکلنے والے سارے اخبارات کی قرعہ اندازی کی گئی ۔ قرعہ فال میر خلیل الرحمٰن کے نام نکلا۔ جنگ اخبار شپ یارڈ کی بنیادوں میں رکھا ہوا ہے۔ اسے قسمت نہیں تو کیا کہیں گے۔
……٭٭……٭٭……٭٭……
شاستری کی موت کی خبر میر صاحب کا اسکوپ تھا
اعلان تاشقند پر دستخط ہو گئے اسی رات روسی وزیر اعظم نے ضیافت دی، بعد ازاں روسی اخبارات کی جانب سے ایک اور دعوت ہوٹل تاشقند میں دی گئی۔ رات گئے تک صحافی اپنے ہوٹل واپس آئے پھر کیا ہوا؟ اس حوالے سے ابصار حسن رضوی نے ایک مضمون میں لکھا ’’ہم آدھی رات کے بعد تھکے ہارے ہوٹل میں اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لئے لیٹے ہی تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔
رسیور اٹھایا تو ایک خاتون اطالوی لہجہ میں کہہ رہی تھی ’’مسٹر رضوی، مسٹر رضوی، مسٹر شاستری از ڈیڈ‘‘۔ میری کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا جواب دوں۔ میں نے ’’بہت بہت شکریہ‘‘ کہہ کر فون بند کر دیا۔ نیند کی حالت میں دوبارہ لیٹ گیا، پھر خیال آیا، شاستری مر گیا، فوراً بیڈ سے چھلانگ لگائی اور کمرے کے دروازے سے باہر ہی نکلا تھا کہ دیکھا ، میر صاحب تھری پیس سوٹ میں تازہ دم لابی میں آرہے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے۔ ’’ارے رضوی تم یہیں کھڑے ہو، ابھی‘‘ میں سمجھ گیا کہ شاستری واقعی مر گیا۔ اب پھر وہی مصیبت کہ جلد سے جلد خبر بھیجی جائے۔ روس کا وقت پاکستان سے کئی گھنٹے پیچھے ہے ، اس لئے پاکستانی اخباروں کی ڈیڈ لائن بھی نکل گئی تھی۔ میں نے پاکستان میں اپنے ایم ڈی اور پی پی آئی کے سربراہ، معظم علی صاحب کو جگا کر خبر لکھوائی، لیکن دوسرے دن خبر صرف میر صاحب کے ’’جنگ‘‘ میں چھپی۔ اس طرح میر صاحب نے ’’اسکوپ‘‘ کیا۔
……٭٭……٭٭……٭٭……
’’نواب میر خلیل یار جنگ‘‘
بر صغیر پاک وہند ہی میں نہیں ،مغرب میں بھی میر صاحب کے دم قدم سے اردو کی ترویج ہوئی ۔لندن سے نکل کرجنگ اخبار پورے یورپ میں اردو دانوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور وطن کی سفارت کا سامان فراہم کرتا ہے ۔ معروف صحافی، مختار زمن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’دنیا کی اہم زبانوں میں شاید سب سے کم عمر زبان ’’اردو‘‘ ہے، لیکن ککڑی کی بیل کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ دلی، لکھنؤ، دکن تو اب تاریخ کا حصہ ہیںلیکن جنوبی ایشیا کو تو چھوڑیے۔ آج اردو بولنے اور سمجھنے والے یورپ، امریکا، کینیڈا سمیت دنیا کے کونے کونے تک پھیلے ہوئے ہیں اور عاشقان اردو کی تسکین کے لئے جنگ ہر جگہ موجود ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی جنگ اخبار نے اردو کی ترویج و ترقی کے لئے جنگی ساز کا کردار اداکیا۔ مورخ تاریخ داستان، اردو میں یہ رقم کرے گا کہ بیسویں صدی ختم ہونے سے پہلے اردو اخبار کی اشاعت لاکھوں تک پہنچ گئی تھی اردو کی جڑیں کئی ملکوں میں پھل گئیں اور یہ میر خلیل الرحمان کی سعی مسلسل کا کرشمہ تھا۔ اگر آج اردو کے عاشق اور اردو کو علوم عالیہ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میڈیم کی حیثیت دینے والے ایک اور قابل احترام ’’میر‘‘ یعنی میر عثمان علی خان وائی دکن زندہ ہوتے تو روزنامہ جنگ کے صلح پسند مالک و مدیر کو ’’نواب میر خلیل یار جنگ‘‘ کے خطاب سے نوازتے‘‘۔
……٭٭……٭٭……٭٭……
ہم عصروں میں قد آور
میر صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی حوصلے کی چٹان بنے رہتے۔ اُنہوں نے کارکنوں کی حماقتوں کے باعث کئی دکھ اٹھائے، لیکن کبھی کسی کارکن پر آنچ نہ آنے دی۔ ایسا کرنا بہت مشکل ہے اورہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں۔ یہ صرف بڑے دل کا شخص کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے میر صاحب اپنے ہم عصروں میں سب سے قد آور تھے۔ وہ کارکنوں کے مفادات کی خاطر اپنا فیصلہ بدل لیتے تھے۔ اُنہوں نے ادارے اور اپنی ذات کو کبھی گڈ مڈ نہیں ہونے دیا۔