• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہفت روزہ ’’اخبار جہاں‘‘ میرے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے جس کی پہلی وجہ یہ کہ ﷲ بخشے میری امی مدتوں سے اس کی قاری تھیں۔ جب تک اسے پڑھ نہ لیتیں، کسی اور رسالے یا کتاب کو ہاتھ نہ لگاتیں۔ دوسری وجہ یہ کہ میں خود بڑی دیر تک ’’بادبان‘‘ کے عنوان سے اخبار جہاں کیلئے کالم لکھتا رہا جس کیلئے جاوید بھائی (میر جاوید رحمٰن) نے کوئٹہ میں مجھے حکم دیا جہاں ہم ہر دو ڈھائی مہینے بعد میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں اکٹھے ہوا کرتے جو سابق اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے ہم پر کر رکھا تھا۔ زندگی نے مہلت دی تو اپنی آپ بیتی میں اس کی تفصیل لکھوں گا۔

یہی وہ دن تھے جب جاوید بھائی سے اک خوبصورت تعلق کا آغاز ہوا جو ان کی وفات کے بعد بھی آج تک قائم ہے۔

مختصراً یہ کہ ’’اخبار جہاں‘‘ سے اک ذاتی جذباتی وابستگی ہے جس کی وجہ سے ’’اخبار جہاں‘‘ آئے تو میں سب سے پہلے اس کی ورق گردانی کرتا اور پھر مخصوص مضامین پڑھنے کے بعد ہی کسی اور طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ گزشتہ ہفتہ ’’23-31جنوری‘‘ کے شمارے میں اک دلچسپ تحریر نظر سے گزری۔ یہ تھا ایک کتاب پر دلچسپ سیر حاصل تبصرہ۔ کتاب کا عنوان ہے۔۔۔ ’’کمپنی تو یہی چلے گی‘‘

فاضل مصنف اک جانے پہچانے صحافی اور مصنف ہیں، نام ہے ان کا محمد ندیم اپل۔ ’’اخبار جہاں‘‘ کے تبصرہ نگار ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:

’’ندیم اپل گزشتہ 40برس سے مختلف قومی اخبارات و جرائد میں فرائض انجام دے چکے ہیں جن میں روزنامہ نوائے وقت، خبریں، مشرق، مساوات، اوصاف، انصاف، جرأت اور آفتاب شامل ہیں۔ انہیں کچھ جرائد کی ادارت کا اعزاز بھی حاصل رہا جن میں ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ، چار دیواری اور ویمن ٹائمز قابل ذکر ہیں۔ اس سے پہلے بھی ان کی ایک کتاب ’’خبر قبیلہ‘‘ ’’قلم فائونڈیشن‘‘ کے زیر اہتمام ہی شائع ہو چکی ہے جو ملک کے معروف صحافیوں، ادیبوں، دانشوروں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جن میں اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی، مجید نظامی، ضیا شاہد، اعجاز احمد قریشی، ڈاکٹر صفدر محمود، مصطفیٰ صادق، حسن نثار، نذیر ناجی اور دیگر نامور ہستیاں شامل ہیں۔ 1980کے عشرے میں آپ لاہور ریڈیو کیلئے ڈرامے بھی تحریر کر چکے ہیں‘‘۔

یہ ’’اخبار جہاں‘‘ کے تبصرہ نگار کے تعارف سے ایک اقتباس ہے جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ’’کمپنی تو یہی چلے گی‘‘ کے مصنف منجھے ہوئے سینئر نامور لکھاری ہیں۔

مختصراً یہ کہ ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘۔ صحافتی صفوں میں ایک ’’سکول آف تھاٹ‘‘ کا خیال ہے کہ ’’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘‘ جبکہ دوسرے ’’سکول آف تھاٹ‘‘ کا خیال ہے کہ ’’کمپنی تو یہی چلے گی‘‘۔ یعنی سہیلوں اور ندیموں، وڑائچوں اور اپلوں میں جوڑ پڑ گیا ہے۔ مجھے دونوں قلم کاروں کا احترام ہے کیونکہ مجھ کم مایہ کے نزدیک سائنس دانوں کے بعد اہل قلم ہی قابل احترام ہیں۔ روحانیات کو ایک طرف رکھتے ہوئے انسانوں کو اگر کسی نے کچھ ہدیہ کیا تو وہ سائنسدان ہیں یا اہل قلم، باقی تقریباً چھان بورا ہے۔ میں کیا میری اوقات اور بساط کیا، میرے ایک محبوب والٹیئر نے کہا تھا۔۔۔

’’آپ کو اس بات کا شعور و ادراک ہونا ضروری ہے کہ جب سے یہ دنیا معرض وجود میں آئی ہے، وحشی نسلوں کو چھوڑ کر دنیا پر کتابوں نے ہی حکمرانی کی ہے۔‘‘

لیکن میرا مسئلہ یہ کہ میں دونوں معزز مصنّفین سے متفق نہیں کیونکہ یہاں کوئی کمپنی نہیں چلے گی کیونکہ کوئی بھی گھٹیا، خود غرض، لالچی، نااہل ’’جمہوری کمپنی‘‘ اس قابل ہی نہیں کہ چل سکے کہ ’’کمپنیاں‘‘ تو انگلینڈ سے کئی گنا بڑے اور زیادہ آبادی والے برصغیر ہندوستان میں بھی بہت سی تھیں لیکن غالب آئی تو ’’مٹھی بھر‘‘ ایسٹ انڈیا کمپنی جو اپنی تمام تر کمزوریوں نالائقیوں کے باوجود سانپوں اور نیولوں پر مشتمل مقامی کمپنیوں پر کئی گنا بھاری تھی۔

بدقسمتی کہیں یا سیاسی المیہ ہماری ہر جمہوری کمپنی فیک یعنی دو نمبر ہے۔ اصل کی گھٹیا ترین نقل بلکہ حقیقت یہ کہ ان میں سے کسی کے پاس اتنی عقل بھی نہیں جو عمدہ نقل کیلئے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ یہ تو بدبودار غلیظ پانی کی وہ بوتلیں ہیں جن پر آبِ حیات کے لیبل چسپاں ہیں حالانکہ تاریخ چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ یہ ’’آبِ مرگ‘‘ ہے۔

ہماری ہر جمہوری کمپنی بوسہ تو ضرور ہے لیکن بوسۂ مرگ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ تازہ ترین امریکن صدر جوبائیڈن مدتوں سے کوریڈورز آف پاور میں چہل قدمیاں کرتے رہے لیکن مالی طور پر اتنے کمزور تھے کہ بیٹے کی بیماری کے اخراجات بھی موجود نہ تھے جبکہ یہاں چند مستثنیات کو چھوڑ کر ایسے جمہوریوں کے غول، ریوڑ، جتھے گنے نہیں جاتے جو اقتدار کے ایک آدھ رائونڈ کے بعد ہی ارب پتی ہو گئے۔

بھاری اکثریت مختلف قسم کے اقاموں کی نہ ہوتی تو کیا آج یہ ایٹمی پاکستان اس بری طرح اقتصادی پولیو کا شکار ہوتا؟ رہ گئیں غیر جمہوری مداخلتیں تو وہ بھی ان کی ننگی کرپشن، نااہلیوں، جہالتوں، خود غرضیوں اور حماقتوں کی ناپاک کوکھوں سے ہی جنم لیتی ہیں۔ یہ تو ایک دوسرے کے ساتھ دھوکوں، وارداتوں سے باز نہیں آتے اور ڈسپلن نام کی کوئی شے ان کے قریب سے بھی نہیں گزری جبکہ خالق کی ہر تخلیق ’’ڈسپلن‘‘ کا ہی شہکار ہوتی ہے۔ یہ دنیا سوائے ڈسپلن کے ہے کیا؟

ہماری جمہوری کمپنیاں تو کمپنیاں بھی نہیں ریڑھیاں، چھابڑیاں، کھوکھے ہیں جو اولادوں کو منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ کیا ان اسمبلیوں میں واقعی سچ مچ کے جینوئن جمہور یعنی عوام کی 5فیصد نمائندگی بھی ہوتی ہے؟ یہاں جمہوریت فیشن ہے اور فیشن بھی ایسا بھونڈا جیسے کوڈو شیروانی پہن لے کیونکہ کوڈو نہیں جانتا کہ شیروانی صرف دراز قد پر ہی جچتی ہے۔

مختصراً یہ کہ نہ یہ کمپنی چلے گی نہ وہ کمپنی۔۔۔ کمپنی صرف وہی چلے گی جس میں کوئی تربیت، ڈسپلن اور کمانڈر ہو گا۔۔۔ جیب کترا نہیں، جیب کترے اور بنارسی ٹھگ نہیں!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین