• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبرزیدی اس دعوے کے ساتھ گفتگو کا آغاز کرتے ہیں کہ پاکستان کی مالیات کے حوالے سے جتنی معلومات ان کے پاس ہیں وہ شاید کسی اور پاکستانی کے پاس نہیں۔ شبر زیدی مزید کہتے ہیں کہ انہوں نے اس شعبے میں چالیس برس گزارے وہ اس دوران اسٹیٹ بینک کے بورڈ میں بھی رہے اور پورے پانچ برس اسٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر بھی۔

مالیات کی اس سوجھ بوجھ کے دعوے کے بعد شبرزیدی کہتے ہیں کہ ’’مالیاتی بے ضابطگیوں کی تفتیش کرنا فوجیوں کا کام نہیں، اگر ٹریس اینڈ ٹریک سسٹم آ جائے تو بہت سی جگہوں سے چوری ختم ہو جائے۔

مالی بے ضابطگیوں کی تفتیش عدالتوں، بیوروکریسی اور فوج کا کام نہیں، یہ کام آڈٹ کرنے والے پروفیشنلز کا ہے، ایف بی آر، ایس ای سی پی، ایف آئی اے، نیب اور اسٹیٹ بینک کے فنانشل کرائمز کے سیکشن بند کرکے فنانشل ریگولیٹری بنانی چاہئے۔

جس کا دفتر اسلام آباد سے کہیں دور ہو، میری اس تجویز میں رکاوٹ وزیر اعظم عمران خان نہیں بلکہ معاشرہ اور سسٹم بنا کیونکہ کاروباری افراد اور بیوروکریٹس نہیں چاہتے کہ مالیاتی معاملات پروفیشنل ماہرین دیکھیں، ریونیو سروس کی تجویز پر ایف بی آر کے تمام ملازمین مخالف بن گئے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہیں جان بوجھ کر کم رکھی گئیں تاکہ قابل لوگ نہ آ سکیں، خریداری پر شناخت ظاہر نہ کرنا کاروباری طبقے کی بدترین بددیانتی ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری کے ہی کاروبار ہیں جن میں ڈاکومینٹیشن نہیں ہے

اس میں اسٹیل رولنگ مل، شوگر، پولٹری اور رئیل اسٹیٹ شامل ہیں، مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو تنقید کے علاوہ کبھی کوئی پلان پیش کرتے نہیں دیکھا،1992 میں ڈی ریگولیشن اکانومی کے تحت پروٹیکشن اکنامک آرڈیننس جاری ہوا، یہیں سے منی لانڈرنگ کی ابتدا ہوئی

ایک قانون ہوا کرتا تھا کہ پاکستانی بیرون ملک اثاثے نہیں رکھ سکتے پھر یہ قانون کتابوں میں دب گیا‘‘۔مالیات میں چالیس سالہ تجربے کے حامل شبرزیدی کی باتوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان کی کئی باتیں درست ہیں مگر کچھ باتیں ایسی ہیں جنہیں وہ بہت سادہ تصور کرتے ہیں حالانکہ وہ مشکل ترین مراحل ہیں۔ان سادہ باتوں سے پہلے انہیں اس بات کا ادراک ہونا چا ہئے کہ اسلامی تاریخ میں کامیاب ترین خلیفہ حضرت عمر فاروق ؓ کو سمجھا جاتا ہے۔

اس کی واحد اور بڑی وجہ حضرت عمر فاروق ؓ کا سخت گیر ہونا ہی ہے۔معاشرے میں جب تک لوگوں کو سزائوں کا خوف نہ ہو، لوگ جرائم سے باز نہیں آتے۔

اگر پاکستان میں لوگوں کو سزائوں کا خوف ہوتا تو وہ کاروبار کی ڈاکومینٹیشن ضرور کرتے، سزائوں سے بچنے کیلئے ہی تو پاکستان کے بڑے سیاست دان ایسے کاروبار کرتے ہیں جن کی ڈاکومینٹیشن ہی نہیں ہے۔ شبر زیدی نے درست کہا کہ ہمارے کاروباری افراد خریداری کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی شناخت نہ ہو، یہ بڑی بددیانتی محض اسی لئے ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کو اس بات کا ڈر ہی نہیں کہ اگر انہوں نے خریداریوں کو چھپایا تو اس کا خمیازہ کڑی سزائوں کی صورت میں بھگتناپڑے گا۔شبرزیدی کی یہ بات بھی درست ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز تنقید تو بہت کرتے ہیں مگر کوئی منصوبہ پیش نہیں کرتے۔

شبرزیدی کی یہ بات بھی درست ہے کہ ایف آئی اے، فوج، نیب، ایف بی آر، بیوروکریسی اور عدالتوں کے ذریعے کرپشن نہ پکڑی جائے بلکہ مالیاتی ماہرین کے ذریعے کرپشن پکڑی جائے

شاندار آڈیٹرز کے ذریعے کرپشن پکڑی جائے۔ باتیں تو درست ہیں مگر ہمارے ہاں مافیاز اتنے مضبوط ہیں کہ ہمیں کرپٹ افراد کا راستہ روکنے کیلئے مذکورہ بالا اداروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں ٹریس اینڈ ٹریک پالیسی بن جاتی اور لوگ اس پر عمل کرتے تو یقینی طورپر بہتری ہوتی۔ لیکن بدقسمتی کا سفر تو اسی وقت شروع ہو جاتا ہے جب ٹیکس لینے والے ہی ٹیکس چوری کا راستہ دکھاتے ہیں، ہمارے ماہرین کرپشن کے ثبوت ہی نہیں رہنے دیتے۔ شاید وائٹ کالر کرائمز کے بڑے کردار ہمارے ہاں ہی ہیں۔

ہماری حکومتیں کرپشن کو تحفظ دیتی رہی ہیں ہمارے کاروباری افراد انتظامیہ کو چکر دیتے ہیں، اپنے لوگوں اور ریاست کو الگ دھوکہ دیتے ہیں، ہمارے ہاں جھوٹ کے ذریعے کاروباری عروج حاصل کیا جاتا ہے کیا بجلی اور گیس چوری نہیں ہوتی؟ کیا ٹیکس چوری نہیں ہوتا ؟

کیا جائیدادوں کو نہیں چھپایا جاتا ؟ وہ قانون کس نے دبایا کہ پاکستانی بیرون ملک جائیدادیں نہیں رکھ سکتے۔ یہ درست ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کم ہیں مگر کیا یہ درست نہیں کہ ہمارے سرکاری ملازمین چوری چکاری روکنے میں ناکام ہوئے ہیں ، کیا ہمارے سرکاری ملازمین اپنے فرائض درست طریقے سے ادا کر رہے ہیں ؟خواتین و حضرات ! مسائل کی نشاندہی کر دینا آسان ہے، مزہ تو تب ہے کہ مسائل کو ختم کر دیا جائے۔

ہم سارا دن یہی گردانیں سنتے ہیں مگر کوئی مداوا نہیں کرتا۔مداوا اس وقت ہو گا جب قانون کی نظر میں سب ایک ہوں گے، جب میرا بندہ اور تیرا بندہ کی گردان نہیں ہو گی، مداوا اس وقت ہو گا جب کوئی اپنے کرپٹ بھائی کو بھی رگڑ دےگا۔پورے یورپ میں شام ساڑھے پانچ بجے دکانیں بند ہو سکتی ہیں مگر آپ کا تاجر ایسا نہیں کرتا۔

اس چلن نے پورے معاشرے کی صحت کو خراب کر دیا ہے۔ نبی پاک ؐ نے فرمایا تھا کہ ’’صبح میں برکت ہے ‘‘ ہمار ی آدھی سے زیادہ قوم سوئی رہتی ہے، ہم صبح جلدی نہ اٹھنے کو بہت بڑا فیشن سمجھتے ہیں۔ہم عدالتوں میں جھوٹ بولتے ہیں، ہمارے لیڈران جلسوں میں جھوٹ بولتے ہیں، ٹی وی چینلز پر جھوٹ بولتے ہیں اور اگر کوئی سوال ایسا آجائے تو پھر آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔ آپ کے معاشرے میں ملاوٹ عام ہے اگر کہا جائے تو جواب آتا ہے ’’یہ کاروبار ہے صاحب !‘‘اس صورتحال پر تو مجھے رباب تبسم چوہان کا شعر رہ رہ کر یاد آ رہا ہے کہ

میں اُن سے ذکرمحبت کروں تو کیسے کروں

جنہیں گماں ہے کہ یہ کاروبار ہے صاحب

تازہ ترین