• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیسا جان لیوا اور کتنا کٹھن کام ہے۔ ملک بھر کے ریگولر کالم نگاروں کو ”اجتماعی نشان حیدر“ ملنا چاہیئے جو برسہا برس سے چند مخصوص شخصیات اور مخصوص موضوعات پر مسلسل لکھ رہے ہیں اور اس کے باوجود ہر کسی کا حلقہ ریڈر شپ نہ صرف قائم ہے بلکہ آبادی میں اضافہ کے تناسب سے اس میں مسلسل اضافہ بھی ہورہا ہے۔ کسی ترقی یافتہ ملک کے کالم نگاروں کو ایسے حالات میں دھکیل دیا جائے تو چھ ماہ سال بعد انہیں سمجھ نہ آئے کہ کیا لکھیں؟ وہی بات کہ … ”اک ہی تصویر بھلا کوئی کہاں تک دیکھے۔“ کوئی کب تک اس کرپشن، لوٹ مار، مہنگائی، دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، لاء اینڈ آرڈر، اقربا پروری، جعلی جمہوریت کا ماتم کرتا رہے؟ بڑا حوصلہ ہے ان کا جو ایک ہی راگ میں ان گنت گیت تخلیق کیے جارہے ہیں۔ پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جہاں ”مستقل افیئرز“ کو بھی ”کرنٹ افیئرز“ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ذرا گہرائی میں جا کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ چودہ اگست 1947ء کو ہجرت کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک جاری ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے لوٹنے والے کوئی اور تھے، آج اور ہیں۔ بظاہر ہم نے ”ڈیفنس“ اور ”گلبرگ“ ایجاد کر لیے اور مہاجر کیمپوں سے کوٹھیوں میں بھی منتقل ہوگئے۔ پیدل اور گڈوں کی بجائے گاڑیوں میں بھی چڑھ گئے، کنوؤں اور نلکوں کی بجائے پانی بھی بوتلوں سے پینے لگے لیکن سچ یہ کہ آج تک ”سیٹل“ نہیں ہوسکے نہ سکھ نصیب ہوا۔ وہی غیر یقینی پن، وہی خوف و سہم کی فضا سو سچ یہ کہ جوہری طور پر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا اور اگر کوئی تبدیلی ہے تو سطحی، جعلی اور مصنوعی۔ سچ بتائیں کیا بہتر ہے؟ ایک یہ کہ آپ سیٹیاں مارتے بے فکرے ہو کر سائیکل پر سفر کررہے ہوں یا شدید ٹینشن کے عالم میں لینڈ کروزر پر چڑھے پھر رہے ہوں؟ موضوعات کی یہی اذیت ناک یکسانیت مجھے میکرو قسم کے موضوعات کی جانب دھکیل دیتی ہے۔ پچھلے دنوں یعنی 16,15 مئی کو میں نے ذرا مختلف موضوع چھیڑا کہ ایجاد، اختراع، دریافت، تحقیق اور تخلیق کے حوالے سے چند مخصوص ملکوں کے علاوہ باقی دنیا بانجھ اور بنجر کیوں ہے؟ رسپانس غضب کا تھا لیکن ڈاکٹر شوکت امان اللہ کا خط شہکار کا درجہ رکھتا ہے۔ میری اپنے قارئین سے درخواست ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ساتھ یہ خط شیئر فرمایئے۔
”جناب حسن نثار! السلام و علیکم
آپ کے پندرہ سولہ مئی 2013ء کے کالم بیحد اہم ہی نہیں بلکہ انتہائی THOUGHT RROVOKING بھی ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کے 16 سال محکمہ بہبود آبادی میں بطور سرجن بسر کیے اور تولیدی صحت کے 70 ہزار سے زیادہ آپریشن کیے۔ اس دوران مریضوں کے سماجی، ثقافتی، جغرافیائی، لسانی، تعلیمی، نفسیاتی و مذہبی میلانات کے گہرے مطالعہ کا موقعہ ملا۔ یہ بیحد دلچسپ مطالعہ ثابت ہوا۔ آپ نے درست کہا کہ ایجادات زیادہ تر ٹھنڈے ملکوں کے سفید فاموں کی مرہون منت ہیں لیکن گرم ملکوں کے سیاہ فاموں نے بھی اہرام اور تاج محل بنائے۔ مایا تہذیب سے موہنجوداڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا، اجنٹاایلورا بھی سامنے ہے۔ مقامیوں نے شاور، زیرزمین پانی کی گذرگاہوں، روشنی و حرارت کا نہایت سائنسی استعمال 3 ہزارسال پہلے کر لیا تھا۔ دہلی میں آج سے 3 ہزار سال پہلے کا کئی ٹن وزنی دھاتی کھمبا ہے جو زنگ آلود نہ ہوسکا اور دھات کی ماہیت کسی کو سمجھ نہیں آسکی۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی معاشرہ DUPLICATE نہیں بلکہ REPLICATE کرتا ہے۔ معاشرہ یا تہذیب عددی لحاظ سے ایک سے دو تو ہو جاتا ہے لیکن عادات و خصائل، رسم و رواج، مذہبی میلانات، عکس بناتے ہیں۔ آنے والی نسل پچھلی نسل کا عکس ہوتی ہے اور اس عکسی بڑھوتری میں کس کی مجال کہ وہ طے شدہ اور فرسودہ PARAMETERS سے بغاوت کی جرأت کرے مثلاً آج کوئی بچہ اپنے باپ سے کہے کہ سورج نہ طلوع ہوتا ہے نہ غروب اور ”طلوع و غروب“ فقط ایک جغرافیائی فریب نظر ہے تو باپ بچے کے بارے کیا کہے گا؟
ایسے لوگ جو معاشرہ کے طے شدہ، سکہ بند، فولادی اور ظالم ”عکسی چکر“ کے خلاف سوچتے اور عمل کرتے ہیں ان کو سائنسی اصطلاح میں (MUTANTS) کہا جاتا ہے اور کوڑھی معاشروں میں ان پر اتنا شدید دباؤ ڈال دیا جاتا ہے جو بیان سے باہر ہے۔ ایک عالی دماغ جو مختلف حوالوں سے مختلف مناظر دیکھ سکتا ہے اپنے فرسودہ شب و روز میں کھو کر مٹی بن جاتا ہے۔ کافر، غدار، عوام دشمن کوئی لیبل لگا دیں۔ آپ نے صحیح نشاندہی کی کہ مغرب نے مختلف انداز میں سوچنے، نئی جہت رکھنے والوں کو آزادی دی ہے۔ معاشرہ کے طے شدہ میلانات سے بغاوت کرنے والوں کو عزت اور تحفظ دیا اور یہ سلسلہ تقریباً گذشتہ 7 سو سال سے جاری ہے ورنہ اس سے پہلے وہ بھی جانوروں کی طرح اوریجنل سوچ کے حامل لوگوں کو مصلوب کرتے، زندہ جلاتے، جادوگر اور چڑیلیں قرار دیتے تھے۔ مونا لیزا جیسے شہکار کے خالق لیونارڈ ڈے ونچی نے سات سو سال پہلے ہی ہیلی کاپٹر کا نقشہ بنا لیا تھا لیکن علم اور عقل کے دشمنوں میں گھرا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ انسانی زندگی اور سوچ کا رخ بدلنے والے گیلی لیو کے ساتھ کیا ہوا۔سائنسی ایجادات سماجی رویوں کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ جب تک سوچوں پر خوف کے پہرے رہیں گے، صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ایک پوری نسل کو قربانی دینی ہوگی۔ سوچ کی آزادی کے فوری ثمرات نہیں ہوتے۔ چین جیسے ملکوں نے ”میجر سرجری“ سے علاج کیا تو صدیوں کا فاصلہ سالوں میں طے ہونے لگا۔ کچھ ایسا ہی ہمارے ہاں بھی ہو جائے تو درست ورنہ ”یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے“ذرا غور فرمایئے ایک بوئنگ 747 میں دس لاکھ نٹ بولٹ ہوتے ہیں جن میں سے ایک کا فیل ہونا کریش کا باعث بن سکتا ہے۔ ذرا کردار، معیار اور ہنر کی عظمت دیکھیں، یہاں بجلی اور فون کی تاریں اور مین ہول کے ڈھکن چوری ہو جاتے ہیں۔وہاں جگہ جگہ ریاضت، قربانیوں، صبر و استقلال کی داستانیں ہیں، یہاں کمیشن اور قبضہ گروپوں کے قصے۔ چلتے چلتے سنیئے کہ ویکسی نیشن کے موجد نے پہلی ڈوز اپنے بیٹے پر آزمائی تھی۔ کیریکٹر کی یہی بلندی قوموں کو بلندیوں تک لیجاتی ہے، باقی قصے کہانیاں ہیں، سنتے سناتے رہو!
والسلام
ڈاکٹر شوکت امان اللہ
329 سٹریٹ 14 فیز 5
ڈی ایچ اے
تازہ ترین